پاکستان کے خلاف بھارت اور اسرائیل کی صف بندی

امریکہ،ہالینڈ اور جرمنی نے اردن میں خصوصی فوجی یونٹیں تعینات کی ہیں

جمعرات 18 جولائی 2019

Pakistan K Khilaf Baharat Or Israel Ki Saafbandi
 محمد انیس الرحمن
افغان امور سے متعلق ایک امریکی جنرل نے ٹرمپ انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ اس وقت افغانستان سے امریکی انخلا خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے ۔اس حوالے سے پہلے بھی کہا جا رہا تھا کہ پینٹاگان اور سی آئی اے ایک طرف اور وائٹ ہاؤس دوسری جانب نظر آرہا ہے۔سوچنے کا امریہ ہے کہ جس وقت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان طویل مذاکرات ہورہے تھے اس وقت پینٹا گان نے یہ موقف کیوں اختیار نہیں کیا؟اس لئے صاف ظاہر ہے کہ امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ نے یہ وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ اگر وائٹ ہاؤس مذاکرات کی میز پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پینٹاگان کی جانب سے اگلی حکمت عملی پر مبنی بیان دلوادیا جائے۔


اس وقت جبکہ دنیا تیزی کے ساتھ تبدیلی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے وطن عزیز میں کیا ہورہا ہے؟یہاں دس برس سے زائدکاعرصہ پہلے پی پی اور بعد میں نواز لیگ نے دبا کر معاشی کرپشن کی جس نے ملک اور قوم کا معاشی کچومر نکال دیا ہے ۔

(جاری ہے)

!!آئے دن دونوں جماعتوں کے معاشی اسکینڈل سامنے آتے جارہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ اس وقت انتہائی اہم دور اہے پر کھڑی ہے خاص طور پر اس وقت جب افغانستان میں عالمی قوتیں اہم فیصلے کررہی ہیں ،بھارت اسرائیل کے ساتھ انتہائی قریبی اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لئے اسے اپنے لانگ رینج میزائل منصوبے سے منسلک کر چکا ہے ۔

دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ شام میں جنگ کو طول دینے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں ماضی قریب میں لخدربراہیمی جو اس وقت ایک بین الاقوامی مصلحت کار“کے طور پر کام کررہے تھے درحقیقت بشار الاسد کے اقتدار کو طول دینے کاکام کررہے تھے۔جبکہ براعظم افریقہ مغربی استعماری کا رروائیوں کا اگلا بڑاہدف قرار پایا ہے مالی میں یورپ کی مشترکہ افواج کی یلغار اس سلسلے کی ابتدائی کڑی ہے۔


اس ساری صورتحال میں بنیادی کھلاڑی اسرائیل ہے جس نے ایک طرف امریکہ اور یورپ کے ذریعے افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا تو دوسری جانب وہ شام میں مشرق وسطی کی جہادی قوتوں کا زور شام کی سرکاری افواج کے ذریعے توڑنا چاہتا تھا تاکہ اس کے بعد اسد حکومت کو چلتا کرکے یہاں پر ایسی کمزور حکومت کو لایا جائے جو خطے میں اسرائیل کے آئندہ تو سیع پسندانہ منصوبوں میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

جہاں تک روس کی جانب سے اسد حکومت کی حمایت کا تعلق ہے تو اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجانا چاہیے کہ روس کو اسد حکومت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ بحیر ہ روم کی جانب شام کی طرطوس کی بندرگاہ کو کسی صورت کھونا نہیں چاہتا کیونکہ اگر ایسا ممکن ہو گیا تو روس کو یورپ کی جانب بحری رسائی حاصل نہیں ہو سکے گی اور اس کی بحری قوت صرف بحرہ بالٹک تک محدود ہو کر رہ جائے گی جہاں سے امریکہ نیٹو کی مدد سے اسے باہر نہیں نکلنے دے گا۔


دوسری جانب چین اور روس شام کے علاوہ افریقی ممالک میں اس قدر بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں کہ وہاں سے نکلنا نہ صرف عسکری طور پر بلکہ اقتصادی طوربھی ان کے لئے ہلاکت خیز ہو گا۔اس سارے منظر نامے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ ،اسرائیل اور یورپ نے شام میں بر سر پیکار اسلامی قوتوں کو روس سے باقاعدہ بات چیت کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا کیونکہ اگر شام کے“جیش الحر“کے نمائندے روس کوا س کے عسکری اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کا یقین دلادیتے تو روس کوئی وقت ضائع کئے بغیر ہی بشار الاسد کو اقتدار چھوڑنے کا مشورہ دے سکتا تھا یہ وہ صورتحال ہے جس کو روکنے کے لئے امریکہ اور یورپ ترکی کے ذریعے شامی اسلامی گروپوں کو اپنے ساتھ بات چیت میں الجھا کر رکھنا چاہتے تھے۔

روسی اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ مقاصد کی بار آوری کے لئے جس وقت امریکہ اور اسرائیل کے منصوبے کے مطابق دمشق میں ایک کمزور حکومت تشکیل دے دی جائے گی تو اس وقت کردستان کا مسئلہ اٹھا کر آزادی کی ایک اور تحریک کا آغاز کر وایا جائے گا جسے مغرب کے صہیونی کار پوریٹیڈ میڈیا کی بھر پور حمایت حاصل ہو گی ۔
کردستان خطے کے چار ملکوں کے درمیان تقسیم ہے جن میں شام ،ایران ،عراق اور ترکی شامل ہیں ۔

سب سے بڑا حصہ عراق کے پاس ہے جو شمالی عراق کہلاتا ہے اس کے بعد ایران ،شام اور پھر ترکی کا نمبر آتا ہے ۔ترکی کے ساتھ منسلک کردستان میں پہلے ہی مزاحمت کی تحریک شروع کی جاچکی ہے اور عراقی کردستان پہلے ہی پکے ہوئے پھل کی طرح ”آزادی“کی گود میں گرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے ۔ایرانی کردستان کو ایرانیوں سے حاصل کرنا اس وقت مشکل نہیں رہے گا جب تین ممالک کردوں کی آزادی کے لئے راضی ہو چکے ہوں گے۔


ایسا محض اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ امریکہ اور اسرائیل نے روس کو اس کی سرحدوں تک محدود رکھنے کے لئے جارجیا میں جو منصوبہ بنایا تھا اسے اب وہاں ناکامی کے بعد کردستان میں پورا کیا جاسکے ۔امریکہ اور اسرائیل یورپ کی حمایت سے کردستان میں ”میزائل شیلڈ “کا بروئے کارلانا چاہتے ہیں تاکہ جس وقت اسرائیل اپنے دجالی صہیونی منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں طاقت اور توانائی کے ذخائر پر ہاتھ صاف کرے تو روس کی جانب سے کسی قسم کی عسکری مزاحمت کو رو کاجاسکے ۔

دوسری جانب روس کو اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر اسلامی قوتیں بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کر دینے میں کامیاب ہو جاتیں ہیں تو ان کا رسوخ شیشان تک جا پہنچے گا جہاں ماضی میں روس کو اسلامی مزاحمت کی شکل میں شدید عسکری اور مالی نقصان اٹھانا پڑ گیا تھا۔
اس منصوبے کو مزید بڑھاتے ہوئے اسرائیلی جنگی طیاروں نے گزشتہ دنوں شامی دارالحکومت دمشق میں ایک فوجی کمپلیکس پر حملہ کیا تھا تاکہ شامی عسکری صلاحیت کی تنصیبات کو بشار حکومت کے بعد اسلامی جہادی گروپوں کے استعمال میں آنے سے پہلے تباہ کردیا جائے ۔

اس سلسلے میں روس کی جانب سے اسرائیلی عزائم کو کاؤنٹر کرنے کے لئے اس کے مگ 31جنگی طیارے نے سینائی کے علاقے عبور کرکے اسرائل کی جانب پر واز بھی کی اور بعد میں بحیرہ روم میں اپنے اڈے کی جانب روانہ ہو گیا۔اس وقت مشرقی بحیرہ روم میں اے طیارہ بردار سمیت روس کے اٹھارہ بحیری جنگی جہاز موجود ہیں جن پر 2000 روسی میرین فوجی تعینات ہیں ۔اسرائیلی طیاروں کی دمشق کے ملٹری کمپلیکس پر بمباری نے خطے کے کئی ممالک کو جنگی طور پر الرٹ پوزیشن میں کردیا ہے ۔


شامی فوجیں اس وقت گولان کے علاقے میں اسرائیل سرحد کے قریب جنگی پوزیشن میں نقل وحرکت کررہی ہیں دوسری جانب لبنان اور اردن نے اپنی فوجوں کو دریائے اردن کے کنارے پر متحرک کر دیا یہ جبکہ ترک فوجیں بھی شامی سرحد کے قریب ہائی الرٹ کردی گئی ہیں کیونکہ شام میں موجود ہ جنگی صورتحال کے دوران اسرائیل پہلی خارجی قوت ہے جس نے شام کے اندر حملہ کیا ہے ۔

اردن کی ”مفرق ائر فیلڈ“میں بھی امریکی خصوصی یونٹ بھی ہالینڈ اور جرمن فوجی یونٹوں کے ہمراہ اتاردی گئی ہیں ۔امریکی دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل بشار انتظامیہ کو شام کی جانب سے اپنے تحفظ کی علامت تصور کرتا ہے اسے خوف صرف اس بات کا ہے کہ کہیں اسلام تنظیمیں وہاں غلبہ نہ حاصل کرلیں ورنہ سارا بنابنایا کھیل بگڑ سکتا ہے۔
لیکن اس بات کو بھی مد نظر رکھاجا ئے کہ اسرائیل اس سارے منظر نامے میں پاکستان کی جانب سے بالکل غافل نہیں ہے ۔

اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت نے اپنے زمین سے فضا تک مارکرنے والے میز ائل پروگرام MRSAM جس کی ابتدا2009ء میں کی گئی تھی اس کے بعد اس میں اسرائیل کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس میزائل پروگرام میں کچھ تکنیکی خرابیاں واقع ہوئی تھیں جن کو درست حالت میں لانے کے لئے اسرائیل بھارت کے ساتھ کام کرتا رہا۔ماضی قریب میں بھارتی سابق ائر چیف مارشل این کے براؤن نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور ان کے دورے کے ایجنڈے میں سب سے اوپر بھارتی میزائل پروگرام میں اسرائیل کو شامل کرنا تھا۔


اس دورے کے دوران جس میں انہوں نے اس وقت کے اسرائیل وزیر دفاع ایھو دباراک،اسرائیلی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل بینی گینز ،اسرائیلی ائر چیف میجر جنرل امیر ایشل اور ڈائریکٹر جنرل فارڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ریر ایڈمرل اوفر شوہیم سے ملاقاتیں کی تھیں۔بھارتی ائرچیف نے اسرائیلی ائر ٹوائر میزائل حاصل کرنے کے لئے بھی اسرائیل حکام سے مذاکرات کئے تھے۔

بھارتی میزائل منصوبہMRSAM بھارت کے ادارے India's Defence Research and Development Organisation (DRDO)کے تحت شروع کیا گیا تھا جو اسرائیلی فضائی دفاعی پیداوار کے ادارے Israel Aerospace Industries(IAI)کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرتا رہا ہے ۔اس میزائل کا پہلا تجربہ ناکام ہو گیا تھا جس کی تفصیلات سامنے نہیں ا ٓسکی تھیں۔دوسری جانب اسرائیلی ماہرین بھارتی ماہرین کے ساتھ اس کے زمینی حملے میں استعمال ہونے والے پر تھوی میزائل منصوبے کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے شب وروزکام کرتے رہے ہیں۔


یہ وہ صورتحال ہے جو پاکستان کے چاروں طرف تیزی کے ساتھ منطقی شکل اختیار کرتی جارہی ہے امریکہ افغانستان سے اس وقت تک نہیں نکلنا چاہتا جب تک وہ یہاں اپنے دجالی مقاصد حاصل نہ کرلے،مشرق وسطیٰ میں وہ ملک جوپا کستانی دوست ملک تصور کئے جاتے ہیں ان کے گرد گھیراتنگ کردیا گیا ہے بھارت افغانستان میں زیادہ سے زیادہ دیر تک امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل کے ساتھ مل کر اپنی دفاعی صلاحیتوں کو پاکستان اور چین کے خلاف بروئے کارلانا چاہتا ہے ۔


اب جبکہ پاکستان کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ کے بندوبست میں چین بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہو چکاہے اور سی پیک منصوبہ تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل میں ہے تو ان تیاریوں میں تیزی آجائے گی ۔ایسی صورت میں پاکستان میں انتہائی مضبوط قسم کی سیاسی حکومت کا ہونا ناگزیر ہے لیکن پاکستان کے اندر موجود نام نہاد جمہوریت کے علمبردار نئے نئے شوشے چھوڑ رہے ہیں ۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ پاک فوج اور پاکستان کے دفاع کے ضامن دیگر ادارے وطن عزیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے خطرات سے بچانے کے لئے تن من دھن سے جدوجہد کررہے ہیں یہ سیاسی آمر اپنے پالتو میڈیا ہاؤسز اور اینکروں کے ذریعے کبھی عمران حکومت کو موجودہ معاشی بد حالی کا ذمے دار قرار دلواتے ہیں تو کبھی تیسری قوت کا نام لے کر پاک فوج کو قوم کے دلوں سے اتارنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں ۔


عالمی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کو اندر سے ضرب لگائی جائے تاکہ پاکستا ن کو عالمی مقاصد کے سامنے بے بس کر دیا جائے۔ان سیاستدانوں سے کوئی یہ سوال کرے کہ گزشتہ ادوار میں انہوں نے کون سا تیر مار لیا ہے ؟قوم نے اس سے زیادہ تباہ کن حالات تو مشرف کے بدترین دور میں بھی نہیں دیکھے تھے۔کیا ان سیاسی شعبد ے بازوں کے خلاف تحقیقات نہیں ہونی چاہئے تھیں جنہوں نے اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا تھا۔

کیا ملکی دولت کو لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لانی چاہئے؟کیا منافع بخش قومی اداروں کی لوٹ سیل لگانے والوں کو کٹہرے میں لانا چاہئے؟
اب جبکہ دونوں جماعتیں پی پی اور نون لیگ اور ان کی لیڈر شپ احتساب کے شکنجے میں ہے۔۔۔اس وقت جبکہ وطن عزیز خارجی اور اندرونی خطرات میں بری طرح گھیر چکا ہے تو قومی یکجہتی کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے دفاعی اداروں پر تنقید کرنے والوں کا اصل چہرہ بے نقاب کیا جائے جو سیاسی عناصر اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے کے مطابق یہ چاہتے ہیں کہ فوج اور قوم کو آمنے سامنے لایاجائے ایسے سیاستدانوں اور میڈیا کے مراثیوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔

آنے والا وقت انتہائی نازک ہے عالمی قوتوں نے بھارت کو پاکستانی پانیوں پر بند باندھنے کی کھلی چھٹی دے کر اسے بنجر اور کسی وقت بھی سیلاب میں ڈبونے کی صلاحیت دے دی ہے اپنی ملکی بقا کے لئے اگرکوئی انتہائی قدم بھی اٹھانا پڑے تو اس سے گریز نہ کرنا چاہئے بصورت دیگر خاکم بدہن ہمارے پاس لکیر پیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan K Khilaf Baharat Or Israel Ki Saafbandi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 July 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.