فلسطین کا نوحہ

تازہ اسرائیلی فضائی حملوں میں 20 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے۔مگر کہیں سے بھی کوئی صدائے احتجاج تک نہیں۔ہیومن رائٹس واچ کی ایک ڈائریکٹر برائے مشرقی وسطی وشمالی افریقا سارہ لیاویسٹن بھی تسلیم کر چکی ہے

Hayat abdullah حیات عبداللہ پیر 18 نومبر 2019

Palestine Ka Noha
ایک سال اور ماضی کے اوراق میں جذب ہونے کو ہے مگر تلملاتی یادوں کی کسک، چبک اور لپک جوں کی توں قائم ہے۔معصوم عارض ولب ورخسار کل بھی اشکوں سے تر تھے، آج بھی آہوں اور سسکیوں میں ڈوبے ہیں۔نام نہاد مسیحاؤں کے دل کل بھی زنجیر بپا تھے، آج بھی پابندِ سلاسل ہیں۔خود کو خجستہ رُو قیادت سمجھنے والے کل بھی شکستہ رُو تھے، اب بھی شکستہ خُو ہیں۔

سالوں بیت چلے امّتِ مسلمہ کا کوئی ایک غم بھی کافور نہ ہوا۔کسی ایک درد کا بھی درماں آج تک نہ ہو پایا۔کتنے ہی وبال، خونیں جنجال بن کر آئے اور اس امّت کو نڈھال اور بدحال کر گئے مگر للکار کی صدا کسی گوشے اور کونے کُھدرے سے نہ آئی۔فلسطین، حلب اور ادلب سے لے کرمقبوضہ کشمیر تک درد چیختے چِلّاتے رہے مگر سینوں میں موجود”فراست“ میں کوئی چنگاری بھڑک کر شعلہ ئجوالہ نہ بن پائی۔

(جاری ہے)

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہی دسمبر 2016 میں فلسطین میں نئی بستیوں کی تعمیر روکنے کی قرارداد منظور کر کے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مغربی اردن اور مشرقی یروشلم میں یہودی آبادکاری کے نئے منصوبوں کو فوری طور پر روک دے۔اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں 2610 نئے مکانات کی تعمیر کا اعلان کیا تھا اور مغربی اردن میں 1048 نئے یونٹس تیار کر کے ٹینڈر جاری کر دیے تھے مگر آج تک عالمِ اسلام کے راہبروں اور راہنماؤں نے لب کشائی کرنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔

اسرائیلی کابینہ، مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل علاقوں میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی قدغنیں تک عائد کر چکی کہ اذان کی آواز سے یہودیوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم بھی اذان کی مخالفت کر چکا ہے مگر گونگی، بہری اور اندھی او آئی سی نے کوئی ایسا جملہ ء معترضہ بھی زبان پر نہ آنے دیا، جس سے اسرائیل کی سمع خراشی ہی ہو جائے۔


ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا
اب تو کفار اور اغیار بھی اہلِ فلسطین کو درد میں تڑپتے اور سلگتے دیکھ کر رنجوروملول ہو جاتے ہیں۔امریکی مائیکل شاہون، پُلِٹزر انعام یافتہ یہودی ہے۔شاہون کو 2001 میں ان کی کتاب”دی امیزنگ ایڈونچر آف کیویلیئر اینڈ کلے“ پر انعام دیا گیا۔

وہ کہ چکا ہے کہ اسرائیل کے زیرِ تسلّط علاقوں میں شدید ناانصافی جیسی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔انسانی حقوق کے سابق ہائی کمشنر کے ترجمان راویرنا چامدستی کے بہ قول اسرائیلی عقوبت خانوں میں 440 فلسطینی بچے ظلم وسربریت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں 12 ایسی لڑکیاں بھی ہیں جن کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیں۔سالانہ 800 بچوں کو قید کر کے وحشیانہ سلوک برتا جاتا ہے۔

صہیونی فوجی رات کے وقت بڑے سفاکانہ انداز میں فلسطینیوں کے گھروں پر حملے کرتے ہیں اور بچوں کو بڑی بیرحمی کے ساتھ شہید کر دیا جاتا ہے۔مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی ابتر اور بدترین صورت حال پر اقوام متحدہ کا مقرر کردہ مبصّر بھی استعفا دے چکا ہے کیوں کہ اسے فلسطینی علاقوں میں جانے ہی نہیں دیا گیا تھا۔جون 2014 میں کریم دیسوز کو غزہ کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے غیر جانبدار مبصّر کے طور پر بھیجا گیا تھا۔

اس نے کہا کہ مجھے قدم قدم پر مایوسی ہوئی۔بالآخر اُس نے زچ ہو کر کہا کہ اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے اُس کی تیار کردہ مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔
نئی بستیاں بسانے کے لیے اہلِ فلسطین کو ہراساں کر کے ظلم وسفاکیت کو مزید تیز کر دیا جاتا ہے۔سفاک یہودی مسلمانوں کو زندہ تک جلانے لگے ہیں۔ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت غرب اردن میں 55 ہزار نئے مکانات کی تعمیر مکمل کرنا چاہتی ہے۔

دریائے اردن کے کنارے نئے شہر بسائے جائیں گے جن میں 55 ہزار 564 نئے گھروں کی تعمیر کی تجویز ہے۔ان میں سے 8300 مکانات بیت المقدس سے متّصل اراضی پر تعمیر کیے جائیں گے۔
دُور افق کے پار ایک سال اور ڈوب جانے کو ہے مگر صہیونی ایٹمی طاقت کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے نرم ونازک ہاتھوں میں پتھر ہیں۔وہ شیشے اور کانچ کے ٹکڑے تھامے ایک خنّاس طاقت کے سامنے کھڑے ہیں۔

نہ جانے ان کے ننھے اور ملائم وجود، عزم وہمت کے کیسے کوہِ گراں بن چکے ہیں کہ وہ بیبس اور مجبور ہونے کے باوجود، وہ دل گیر، اسیر اور قیدوبند کی صعوبتوں میں مبتلا ہونے کے باعث بھی دنیا کی ظالم ترین قوم کے سامنے سینہ سپر ہیں۔اسرائیلی فوجی ان پر کتّے چھوڑ دیتے ہیں، بھوکے کتّے نے ایک فلسطینی بچے کو بھنبھو ڑ ڈالا۔اس زخموں سے لہولہان بچے کو قید میں ڈال دیا گیا۔


دسترس میں حیات ہے، لیکن
اس کی آرائشیں کہاں باقی؟
تازہ اسرائیلی فضائی حملوں میں 20 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے۔مگر کہیں سے بھی کوئی صدائے احتجاج تک نہیں۔ہیومن رائٹس واچ کی ایک ڈائریکٹر برائے مشرقی وسطی وشمالی افریقا سارہ لیاویسٹن بھی تسلیم کر چکی ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں ڈالے گئے کم سن بچوں پر مظالم کی داستانیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی بچوں کے ساتھ جو بدسلوکی کی جاتی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں۔مسلسل مصائب وآلام اور سخت جان آزمایشوں میں مبتلا ان بچوں میں 76 فی صد بچوں کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ان کے جسموں کو سگریٹوں سے داغا جاتا ہے۔یہیں پر بس نہیں بلکہ ان کے معصوم وجود کو کرنٹ لگایا جاتا ہے۔انھیں بھوک اور پیاس کی جاں گسل اذیتیں دی جاتی ہیں۔

سخت سردیوں میں یخ بستہ پانی ان کے جسموں پر ڈال کر ان کی بیبسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ایسے درد بھی ان کے مشامِ جاں سے گزارے جاتے ہیں کہ یہودی انٹیلی جنس کے درندے ان کے جسموں کو قینچیوں کے ذریعے کاٹ ڈالتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے ہر امتحاں کے لیے
زندگی کو ہمارا پتا یاد ہے
مگر نئی دنیا کے قواعدوضوابط کے مطابق یہ بچے دہشت گرد ہیں۔

نئے عالمی قوانین کی رُو سے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر مقابلہ کرنے والے یہ بچے بہت بڑے مجرم ہیں۔آگ برساتے طیاروں اور بموں کی برسات میں غلیلوں سے اپنا دفاع کرنے والے یہ بچے بنیاد پرست ہیں۔اسی لیے سب چپ ہیں۔معلوم نہیں مسلم راہنما اور سربراہ احساسِ زیاں کے ہر مرحلے کو کس طرح سہ جاتے ہیں؟ کس طرح اتنے گھمبیر جبرواستبداد پر ان کے دل سارا بوجھ سہار پاتے ہیں؟ درد کی کسی تفسیر، آنسوؤں کی کسی تشہیر اور سانحوں کی کسی تعبیر میں بھی انھیں اپنی کوئی تقصیر محسوس نہیں ہوتی۔

اے کاش! سال نو کی آمد پر درد کی کوئی ٹیکنالوجی ان کے سینوں میں رکھ دی جائے۔احساس مروت کو جگانے والے آلات ان کے بدنوں میں سرایت کر دیے جائیں۔کرسی اور اقتدار کے لیے اپنی اپنی دکان داری سجانے اور چمکانے لیے ملک کے امن وسکون تک کو برباد کر دینے والے ان سیاسی مداریوں کو کرسی کے علاوہ کچھ بھی تو دکھائی نہیں دیتا۔ان کی سیاسی آنکھوں کے سارے جنتر منتر اقتدار پر قبضے کے لیے ہی حرکت میں آتے ہیں۔

ان کے دلوں میں حرص وہوس کی بجائے مسلم امہ کے لیے کوئی منور اور تابندہ احساس کیوں نہیں جذب ہو پاتا؟ یہ کیسی بیماری ہے کہ جس میں یہ سارے ہی مبتلا ہیں.. یہ کیسا جرم ہے کہ جس کے یہ سب مرتکب ہیں؟
سنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں
وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Palestine Ka Noha is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 November 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.