قلعہ بجنوٹ

اس قلعہ کا پہلا نام قلعہ ونجھروٹ تھا، یہ قلعہ راجہ ونجھا نے تعمیر کرایا تھا ۔تاریخ مرادکیمطابق 574ھ/1178ھ میں اس قلعہ کو شہاب الدین غوری نے مسمار کرادیا تھا

Fayyaz Mehmood Khan فیاض محمود خان جمعرات 12 نومبر 2020

Qila Banjot
رحیم یار خان شہر کا ذکر کریں تو یہ شہر قدیم و جدید کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اس شہر کی جدت میں شیخ زاید بن سلطان النہیان مرحوم کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ شہر ابوظہبی کے شیوخ کا پسندیدہ شہر ہے جہاں وہ ہر سال شکار کے غرض سے آتے ہیں۔ جہاں رحیم یار خان کا ابوظہبی پیلس، شیخ زاید ایئرپورٹ، خواجہ فرید انجینیئرنگ یونیورسٹی اور شیخ زاید میڈیکل کمپلیکس جِدت کے عکاس ہیں وہیں شہر کے شمال و جنوب میں واقع بگھلا فورٹ، سسّی کا مجوزہ شہر بھٹہ واہن، مؤ مبارک کا قلعہ، قدیم پتّن مِنارہ، بی بی کرم خاتون کا مقبرہ اور قلعہ بجنوٹ و ماچھکی اس شہر کی قدیم تاریخ اور عالیشان ماضی کا حصہ ہیں۔

رحیم یار خان دنیا کے ان چند تاریخی شہروں میں سے ایک ہے جو اپنے آغاز سے ہی اسی جگہ قائم ہیں جہاں وہ بسائے گئے تھے۔

(جاری ہے)

مختلف ادوار میں اس شہر کو کئی ناموں سے نوازا گیا جن میں الور، پتن، پھول ودہ اور نوشہرہ شامل ہیں۔ رحیم یار خان کے موجودہ نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ 1881 میں جب ریاست کے بارودخانے کو آگ لگی تو ریاست کا شہزادہ ”رحیم یار خان” اس حادثے میں مارا گیا جس کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا۔

دوسرا یہ کہ نوشہرہ نام کا ایک بڑا شہر خیبر پختونخواہ میں پہلے ہی موجود تھا جس کی وجہ سے اس شہر کا نام بدلنا ناگزیر تھا۔چولستان کی وسعتوں میں تاریخ کے کئی اِسرار دفن ہیں جنہیں آج تک کوئی پوری طرح نہیں جان سکا۔ لیکن ہم جیسے تاریخ کے متوالے کہیں نہ کہیں سے ان خزانوں سے جھولیاں بھر لاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک راز چولستان کے 22 قلعوں میں سے ایک قلعہ بجنوٹ ہے ۔


 اب ہم آتے ہیں قلعہ بجنوٹ کی جانب جو قلعہ دراوڑ سے تقریباً 90 کلومیٹر دور صحرا کی انتہائی گہرائیوں میں دشوار گزار راستوں پر موجود ہے اور اس تک پہنچنے کا دوسرا راستہ بهاولپور سے تقریباً ایک سو پچانوے کلومیٹر براستہ چنن پیر سے ہے جس میں تقریباً پچپن کلومیٹر پکی سڑک اور باقی ایک سو چالیس کلومیٹر کچا راستہ ہے جس پر کئی جگہوں پر ریت کے ٹیلوں کے انبار موجود ہیں،رحیم یارخان سے یہ قلعہ تقریبا150کلومیٹر پر ہے ،اس قلعہ کا پہلا نام قلعہ ونجھروٹ تھا، یہ قلعہ راجہ ونجھا نے تعمیر کرایا تھا ۔

تاریخ مرادکیمطابق 574ھ/1178ھ میں اس قلعہ کو شہاب الدین غوری نے مسمار کرادیا تھا لیکن کرنل ٹاڈ کیمطابق یہ قلعہ 757ھ میں راجہ کہڑ کے لڑکے تنو نے تعمیر کرایا تھا۔
یہ قلعہ مدتوں تک کھنڈرات کی حالت میں پڑا رہا پھر1171ھ/1757ء میں موریا داد پوترہ نے اس کی ازسر نوتعمیر کرائی ۔1759ھ میں علی مراد خان نے یہ قلعہ حاصل کرکے اسکی مرمت کرائی دوسوسال تک یہ قلعہ مرمت کے بغیر پڑا رہا اس قلعہ کی زیادہ شکستہ حالی کا سبب پاکستان و بھارت کی1971کی جنگ ہے جب بھارت کے جنگی طیاروں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے اس قلعے پر شدید بمباری کی اور اپنی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ ہم نے پاکستان کی چیک پوسٹ کو تباہ کیا ہے مگر یہ جھوٹی افواہ تھی۔

واضح رہے کہ بجنوٹ قلعہ سے انڈیا 13کلومیٹر دور ہے۔
بجنوٹ قلعے تک فور بائی فور ویل گاڑی ہی جا سکتی ہے اور وہ بھی کم از کم دو گاڑیوں کا گروپ ہونا چاہیے تاکہ خدانخواستہ کسی مقام پر ایک گاڑی میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں دوسری گاڑی اس کی مدد کے لیے موجود ہو ۔ان ویرانوں میںآپ بائیک پر صحرا میں اکیلے قلعہ بجنوٹ کو ڈھونڈنے جانا چاہتے ہیں بغیر گائیڈ کے اور وہ بھی اکیلے بائیک پرتو یہ ناممکن اور خودکشی کی کوشش ہے ۔

یہاں آپ کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے ریت میں بائیک کی چین ٹوٹنا، پنکچر ہو جانا، انجن سیز ہو جانا، راستہ بھٹکنا ،بارش کا اچانک امکان اور پھر قلعے کو ڈھونڈناخودکشی اود ناممکنات میں سے ہے،قلعہ میں ان مورچہ نما برجوں کے اندرسیڑھیاں بھی بنائی گئی تھیں ایک جیسے بنے ان برجوں کا قطر تقریبا24فٹ اور اونچائی بھی تقریبا اتنی ہی ہوگی تاہم دیواروں کی اونچائی ان سے قدرے کم ہے ایک برج مکمل طور پر مسمار ہو چکا ہے باقی3 خستہ حالت میں موجود ہیں ۔

مقامی افراد کے مطابق قلعے کے 4بڑے برج اور 2چھوٹےبرج تھے جوشاید آنے والے وقت میں اپنا نام ونشان کھو دیں گے قلعہ بنیادی طور پر کچی مٹی سے بنایاگیا تاہم اس کے کچھ حصے اور دروازہ پکی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔
 چولستانیوں کا کہنا ہے کہ چولستان میں صدیوں پرانے ہمارے قدیم تہذیبی مراکز تاریخی قلعے جن میں قلعہ بجنوٹ ، قلعہ موج گڑھ ، قلعہ اسلام گڑھ ، قلعہ نواں کوٹ ، قلعہ مروٹ ، قلعہ میر گڑھ ، قلعہ دین گڑھ اور رام کلی وغیرہ حکومتی عدم توجہی اور سی ڈی اے کی غفلت، نااہلی، عدم مرمت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے شکست دریخت کا شکار ہو کر مٹی اور ریت کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں جن کا ذکر اب تاریخی کتابوں میں ملے گا ۔

مگر ان کے آثار اب نہ ہونے کے قریب ہیں۔ بلکہ بیشتر قلعوں کے ختم ہو چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qila Banjot is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 November 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.