ْصادقین آرٹ کی دنیا میں آج بھی زندہ ہیں

صادقین نے آرٹ کے ذریعہ کلامِ ا قبال،غالب اور فیض احمد فیض جیسے کئی شعرا کے اشعار یعنی کلا سیکل لٹریچر کو مصوری کا روپ دیا۔پاکستان کی آزادی کے بعد صادقین سب سے زیادہ مشہور مصور تصور کیے جاتے ہیں

منیٰ رفیق منگل 28 جنوری 2020

sadqeen art ki duniya mein aaj bhi zinda hain
پا کستان میں ان عظیم لوگوں کی کمی نہیں جنھوں نے اپنی صلاحیتوں اورہنر سے دنیا بھر میں نہ صرف اپنا لوہا منوایا بلکہ جہا ں بھی گئے ملک کا نام روشن کیا اور فخر کا باعث بنے۔انہی بڑے ناموں میں سے ایک نام پاکستان کے مشہور اور دنیا بھر میں جانے مانے آرٹسٹ صادقین کا نام بھی ہے۔صادقین1930کو امروہہ میں پیدا ہوئے جبکہ1987میں 57کی عمر میں وفات پائی۔

صادقین کا نام سنتے ہی آرٹ کی دنیا کا وہ باب کھلتا ہے جس کا کوئی ایک پہلو نہیں یہ خیالات اور تصورات ہنر کے مختلف روپ دھار کر لفظوں اور رنگوں کی صورت میں نمایا ں ہو جاتی ہے۔بے رنگ اور بے زباں دیواروں میں رنگ اور لفظوں کی جان ڈالنے والے صاد قین کے فن پاروں کا کوئی ثانی نہیں یہ اپنی مثال آپ ہیں۔۔
ٓصادقین نے آرٹ کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا ان سے پہلے پاکستان میں چند ہی مصوروں نے فنِ خطاطی پر کام کیا مگر صادقین نے پوری مہارت سے خطاطی،مصوری اور بلخصوص دیواری مصوری جیسے آرٹ کو متعارف کروایا اور آج بہت سارے آرٹسٹ پاکستان میں ان کو فالو کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

صادقین نے آرٹ کے ذریعہ کلامِ ا قبال،غالب اور فیض احمد فیض جیسے کئی شعرا کے اشعار یعنی کلا سیکل لٹریچر کو مصوری کا روپ دیا۔پاکستان کی آزادی کے بعد صادقین سب سے زیادہ مشہور مصور تصور کیے جاتے ہیں۔
 انھوں نے بڑے پیمانے پر عوامی عمارات پر اپنے آرٹ کے جوہر دکھا ئے اور اپنے فن کا بڑا حصہ عوام کے لیے کام کر کے عطیہ کیا۔ صادقین اپنے الفاظ میں بنیادی طور پر مبینہ اہمیت کے ساتھ اعداد وشمار کے ایک پینٹر تھے وہ ایک سماجی مبصر تھے۔

ان کی یادگار35 murals سے زائد مقاما ت پر مشتمل ہے۔ جن میں فرئیر ہال کراچی، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، منگلا ڈیم،علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف جیولوجیکل سائنسز، اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی، ابوظہبی پاور ہاوئس۔
اسکامک ا نسٹی ٹیوٹ میں ان کی پینٹگ اور خطا طی نے کل عمارت کا سات ہزار مربع فٹ کا رقبہ گھیرا ہوا ہے۔

1961میں صادقین نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہیڈ کوار ٹر میں ایک بڑی پینٹگ کے ذریعے عمارت کی تزئین کی جس میں انھوں نے سقراط سے لے کر اقبال اور آئن اسٹائن جیسے دانشورں کی دانشورانہ پیش رفت کو ظاہر کیا ہے۔صادقین دنیا میں جانے مانے پاکستانی آرٹ لیجنڈ ہیں جو حقیقی تخلیقی آرٹ اور اسلامی خطاطی میں نئے رجحانات کے لیے سب سے بہتر آج تک سمجھے جاتے ہیں۔

 
دیواری مصوری میںآ ج بھی کوئی صادقین کا ثانی نہیں جو ان کے آرٹ کا خاصا ہے۔ ان کی بین الااقوامی شناخت آرٹ میں نئے پہلوؤں اور رجحانات متعارف کرانے کی وجہ سے تھی خاص طور پر اشعار کی خطاطی جو اس وقت بالکل متعارف نہیں ہوئی تھی۔صادقین ایک خود ساختہ خود سکھایا پینٹر تھے مکمل طور پر غیر معمولی اور اس سے اوپر وہ اپنے آرٹ اور خیالات حوصلہ افزائی کے لیے خود ہی سے متاثر تھے اور اپنے لیے ایک اسکول کی طرح تھے۔

صادقین ماسٹر ایجالوو اور ماسٹر لیو نارڈو ڈی ونچی جیسے عظیم فنکارں سے مختلف تھے اور اس حقیقت کی تصدیق صادقین کے دیے گئے آرٹ کے ابتدائی کام نے ہی کر دی تھی دو سرے ماسٹر کی طرح وہ بھی اس وقت تک غیر واضح تھے جب تک مسٹر حسین شہید سہروردی نے ان کی صلاحیتوں کو واضح کرتے ہوئے سراہا نہیں تھا۔صادقین کو ان کی فنی خدمات کے پیشِ نظر تمغہ امتیاز، ستارہ امتیاز اور پرائیڈ آف پر فارمنس سے نوازا گیا۔

1940 میں آپ نے ایک پرو گریسو تحریر اور آرٹسٹ تحر یکوں میں شمولیت اختیار کی۔ 
1954 کوئٹہ میں پہلی بار آپ کے فن پاروں کی نمائش ہوئی۔1955 میں آپ نے فرئیر ہال اور مسٹر سہروردی کی رہائش گا ہ پر فن پاروں کی نمائش کا انعقاد کیا اور جناح اسپتال کی دیواری مصوری کا کام سر انجام دیا۔1960 میں آپ کو تمغہ امتیاز اور نیشنل اگزبیشن میں پہلے انعام سے نوازا گیا۔

1961میں ایوارڈ (Laureate de paris) سے نوازا گیا۔1962پریذ یڈنٹ میڈل آف آنر ،اسٹیٹ بینک آف پاکستان مورل اور فرانس میں نمائش کا انعقاد کیا۔ 1963 میں یونائیٹڈ اسٹیٹ کا دورہ کیا او ر اپنے آرٹ کی نمائش کی۔
1967 میں منگلا ڈیم پر مورل کی فنکاری،1968مورل پنجاب یو نیورسٹی کا شا ہکار بنایا۔1969 میں سورہ الرحمن کی خوبصورت خطاطی کی۔ 1970((Rubaiyyat- e-sadequain naqqashماسٹر پیس کتاب پبلش کی۔

1973 مورل لاہور میوزیم پر کام کیا۔1974مڈل ایسٹ اور ایسٹرن یورپ میں نمائش کی۔1976مورل آف نیشنل بینک آف پاکستان۔ 1977 لاہور میوزیم میں اسلامک گیلری بنائی گئی۔1979دبئی میں مورل پر کام کیا۔1981 بھارت کا دورہ کیا اور علی گڑھ، بنارس،حیدرآباد اور دہلی میں اپنے مورل فن کا لوہا منوایا۔1985میں غالب،فیض کے اشعار کو مصوری کا روپ دیا۔
1986 فرئیر ہال کو فنِ مورل کے ذریعے چارچاند لگائے۔

ْصادقین کے لیے یہ کہنا کسی طور سے کم نہیں ہوگا کے ایسے آرٹسٹ صدیوں میں جنم لیتے ہیں اور اپنے فن سے صدیاں اپنے نا م کر لیتے ہیں جس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے جب ان کے دنیا سے گزر جانے کے 30 سال بعد بھی دنیا کی سب سے بڑی سائٹ Googleٓٓٓ نے صادقین کی خدمات کو سراہا اور انھیں خراجِ تحسین پیش کر تے ان کے آرٹ کو گوگل کا حصہ بنایا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sadqeen art ki duniya mein aaj bhi zinda hain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 January 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.