سکھوں کا عالمی اجتماع․․․․․

سکھ بھارت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں ۔بر صغیر سے انگریز کے انخلا اور ہندوستان کی آزادی کے لئے سب سے زیادہ جانی ومالی قربانیاں سکھوں کی ہیں ۔جس ملک کے قیام کے لئے سکھوں نے انگریز عہد میں ماریں کھائیں

جمعرات 29 نومبر 2018

sukhnon ka aalmi ijtima
 ارشاد احمد ارشد
جس نے بھی کہا خوب کہا تھا ”کہیں کی اینٹ کہیں کاروڑابھان متی نے کنبہ جوڑا“یہ مثال اس ملک پر صادق آتی ہے جسے دنیا بھارت کے نام سے جانتی ہے ۔بھارت اگر چہ رقبے اور آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے لیکن یہ ملک جتنا بڑا ہے اس کے حکمران اور پالیسی ساز سوچ ،فکر اور عمل کے اعتبار سے اتنے ہی چھوٹے اور کم ظرف ہیں ۔


بھارت کے حکمران اور پالیسی سازدعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت کے دعوے جمہوریت کی حالت چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر ہے والی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی کی سب سے زیادہ تھریکیں چل رہی ہیں جن میں ایک مضبوط تحریک خالصتان کے قیام کی تحریک ہے ۔
سکھ بھارت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں ۔

(جاری ہے)

بر صغیر سے انگریز کے انخلا اور ہندوستان کی آزادی کے لئے سب سے زیادہ جانی ومالی قربانیاں سکھوں کی ہیں ۔جس ملک کے قیام کے لئے سکھوں نے انگریز عہد میں ماریں کھائیں ،جیلیں کاٹیں ،ہتھکڑیاں پہنیں ،کوڑے کھائے ،چکیاں پیسیں ،سولیوں پر چڑھے ،پھاسی گھاٹ آباد کئے ۔۔۔آج اس ملک میں سکھ اپنی شناخت ،تشخص کی تلاش میں ہیں اور وجود زبان حال سے کہہ رہے ہیں ۔


کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے جب بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کی آزادی کے لئے براہمن کی جانی ومالی قربانیاں سب سے کم ہیں جبکہ سکھ قوم کی جانی ومالی قربانیاں سب سے زیادہ ہیں لیکن یہ تاریخ کی ستم ظریقی نہیں تو اور کیا ہے کہ سب سے کم قربانیاں دینے والا بر ہمن بھارت کے سیاہ وسفید کا ملک بن چکا ہے جبکہ سکھوں کے ساتھ شودروں جیسا سلوک روار کھا جارہا ہے ۔

برہمن کے اس عدم برداشت اور متشد دانہ رویہ کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں اس وقت 55سے زائد آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔
سکھ تحریکوں کی تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنا بھارت کے قیام کا عرصہ ہے ۔بھارت کے قیام کے ساتھ ہی سکھ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے تب سے ان کی تحریک کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔ برہمن کے لئے سکھوں کی تحریک پر قابو پاناناممکن ہوچکا ہے جو ظلم نہروکی بیٹی اندر اگاندھی نے سکھوں پر کیا ایسا ظلم تو انگریز نے جلیا نوالہ باغ میں بھی نہ کیا تھا جس کی ایک مثال گولڈن ٹیمپل پر ظالمانہ اور سفاکانہ حملہ تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اندر اگاندھی سکھ تحریک پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکیں ۔

۔۔اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔
خالصتان کے قیام کی تحریک آج بھی جاری ہے جس کا ثبوت عالمی سکھ اجتماع ہے جو2020ء میں مشرقی پنجاب کے قصبہ کرتارپور میں منعقد کیا جائے گا۔اس اجتماع کا مقصد دنیا بھر میں بکھرے سکھوں کو مجتمع کرنا ،بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا ،سکھوں کے حقوق کا تحفظ کرنا آزاد سکھ ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کرنا ہے ۔

اس پس منظر میں سکھ پر امید ہیں کہ 2020ء کا اجتماع خالصتان کے قیام کے لئے ریفر نڈم ثابت ہو گا ۔
بھارتی مظالم ودہشت گردی کے خلاف اور 2020ء کے اجتماع کو کامیاب کرنے کے لئے دنیا بھر کے سکھوں نے جدوجہد تیز تر کردی ہے ۔تمام سکھ تنظیمیں پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع قصبہ کرتا رپور میں بڑے اجتماع کی تیاری کر رہی ہیں جس میں دنیا بھر سے لاکھوں سکھ یا تریوں کی شرکت متوقع ہے ۔


اجتماع میں بھارتی پنجاب کی آزادی کے حوالے سے مختلف اعلانات اور اقدامات کئے جائیں گے ۔اس سلسلہ میں جلد ہی ننکا نہ صاحب میں مختلف سکھ تنظیموں کی ایک بڑی اکٹھ ہو گا جس میں اجتماع کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے گا اور اجتماع کو کامیاب بنانے کے لئے دنیا بھر میں بھر پور مہم بھی چلائی جائے گی ۔
اس سلسلہ میں ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل مشرقی پنجاب میں سکھوں کا ایک اجتماع ہو چکا ہے جس میں تقریباً ایک ملین لوگ شریک ہوئے تھے ۔

اس اجتماع کی کامیابی سے سکھوں کو حوصلہ ملا ہے اور اس بات کا یقین ہوچلا ہے کہ وہ ایک عالمی اجتماع بھی کرسکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ کرتار پور نام کا ایک گاؤں پاکستان میں بھی ہے جو ضلع نارووال تحصیل شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے ۔یہاں سکھ مذہب کے بانی گرونا نک جی کی سمادھی ۔۔۔قبر اور عظیم الشان گردو ارہ دربار صاحب بھی واقع ہے ۔

یہ سب مقامات سکھوں اور مسلمانوں کے لیے تقدس حامل ہیں ۔گرودوارہ دربار صاحب کرتا رپور اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقام ہے ۔
پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور ،پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس یہ سرحد کے قریب ایک دور دراز گاؤں میں واقع ہے ۔گرونا نک جی 70برس اور چار ماہ تک سنسار میں جئے۔

انہوں نے اپنی زندگی کے 70برسوں میں سے 18برس کرتا رپور میں گزارے تھے ،جو کسی بھی جگہ ان کے قیام کا سب سے لمبا عرصہ ہے ۔سکھ مذہب کے مطابق کرتا رپور کانام بھی گرونا نک جی نے خود تجویز کیا تھا۔
اسی طرح سکھوں کے دوسرے گرو،گروانگدنے بھی سات برس کا عرصہ یہیں گزاراہے ۔انہیں گرونا نک نے اپنی زندگی میں ہی دوسرا گرومقرر کردیا تھا ۔سکھ مذہب کے بانی گرونانک دیو کا انتقال 1539ء میں ہوا تھا ۔

یاد رہے کہ کرتا رپور سرحدی علاقہ ہے ،جس کیلئے نارووال سے سفر کرنا پڑتا ہے ۔اگر چہ سکھ مذہب کے پیروکار گزشتہ 71برسوں میں کرتا رپوربہت ہی کم تعداد میں آئے ہیں ،مگر بھارت میں مقیم سکھ برادری کے لوگ کرتا رپور کے درشن چار کلو میٹر کی دوری سے کرتے ہیں ،جس کیلئے بھارت نے ”درشن استھل “قائم کرر کھا ہے ۔
یہاں سے وہ دور بین کے ذریعے قدیم گردوارے کا دیدار کرتے ہوئے عبادت کرتے ہیں ۔

کرتا رپور میں واقع دربار صاحب گرودوارہ کابھارتی سر حد سے فاصلہ چند کلو میٹر ہی ہے جبکہ نارووال ضلع کی حدود میں واقع اس گرودوارہ تک پہنچنے میں لاہور سے 130کلو میٹر اور تقریباً تین گھنٹے ہی لگتے ہیں ۔پاکستان نے بھارت کو تجویز پیش کی تھی کہ کرتا رپور کابارڈر کھول دیا جائے تا کہ سکھ آسانی سے گردوارہ کی یاتراکے لئے آسکیں لیکن بھارت کی روایتی سکھ دشمنی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔


بات ہورہی تھی سکھوں کے عالمی اجتماع کی ۔اجتماع کی تیاریوں کے حوالے سے دنیا بھر کے سکھوں میں بہت جوش وخروش پایا جارہا ہے ۔خاص کربرطانیہ ،امریکہ اور کینیڈا میں آباد سکھ اجتماع کو کامیاب کرنے کے لئے ابھی سے تیاریوں میں مصروف ہو گئے ہیں ۔امریکی تنظیم ”سکھ فارجسٹس “کے زیر اہتمام لندن میں کچھ دن قبل خالصتان کے حق میں ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا ۔


بھارت نے اول تو برطانیہ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ اس ریلی کو منعقد ہی نہ ہونے دے اور اس پر پابندی لگا دے تا ہم برطانوی حکومت نے بھارتی مطالبہ پر بیان جاری کیا کرہمارے ہاں اظہار رائے کی آزادی ہے ،پرامن طریقے سے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قوم اور مذہب کے افراد کو اجتماعات کے انعقاد کی اجازت ہے ۔
اس لئے ریلی کو روکنا ممکن نہیں ۔

اس ریلی کا مقصد یہ تھا کہ 2020ء میں پوری دنیا میں موجود سکھوں کو اس ریفر نڈم سے روشناس کروایا جا سکے کہ جس کا موضوع آزاد خالصتان کا قیام ہے ۔برطانیہ میں سفارتی شکست کے بعد بھارت نے اپنا پرانا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا اور الزام لگایا کہ اس سب کے پیچھے آئی ایس آئی ہے ۔اسی طرح کینیڈا میں بھی سکھوں کے خالصتان کے حق میں ہونے والی ریلیوں ،پروگراموں اور جلسوں کو پاکستان سے جوڑنا شروع کردیا گیا ہے ۔


حالانکہ تاریخ سے ادنی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ برصغیر برطانوی نو آبادی رہا ہے اس دوران بر صغیر سے تعلق رکھنے والے ہر مذہب اور قوم کے لوگ بڑی تعداد میں برطانیہ میں آباد ہو گئے تھے جن میں سکھ بھی بڑی تعداد میں شامل تھے ۔یہ وہ وقت تھا جب سکھوں نے بر صغیر سے برطانوی انخلا اور ہندوستان کی آزادی کے لئے آواز اٹھائی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم انگریزوں کے بعد برہمن کی غلام بن گئی ہے تو اب سکھ ہندوسامراج کے پنجہ استبداد سے آزادی کے لئے کوشاں ہیں ۔

سو ۔۔۔
اس وقت سے ہی برطانیہ اور کینیڈا میں سکھ تحریکوں نے اپنے وطن کی آزادی کے حوالے سے جنم لینا اور کام کرنا شروع کردیا تھا۔اس پس منظر میں بھارت کی طرف سے برطانیہ ،کینیڈا وغیرہ میں متحرک سکھ تنظیموں کے ڈانڈے پاکستان کے ساتھ جوڑنا جہالت ،لاعملی اور پاکستان دشمنی کے سواکچھ نہیں ۔
بھارت عرصے سے ایک تاثر دینے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے کہ خالصتان تحریک درحقیقت سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالہ کی لگائی گئی وقتی آگ تھی جو اب بجھ چکی ہے ۔


اگر بھارت کا دعوی تھوڑی دیر کے لئے درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ بھارت سکھ تنظیموں پر پابندیاں کیوں عائد کررہا ہے ،برطانیہ اور کنیڈا پر سکھوں کی ریلیاں روکنے کے لئے سفارتی دباؤ کیوں ڈال رہا ہے ۔بھارت کی طرف سے سکھ تنظیموں پر پابندیاں لگانا اور برطانیہ کو بھی پابندیاں لگانے پر مجبور کرنا اس بات کا بین کا ثبوت ہے کہ سکھوں کی آزادی کی تحریک پوری طرح موجود ہے ۔

اس ضمن میں بھارت کے حکمران اور نام نہاد دانشوریہ دلیل بھی دے رہے ہیں کہ سکھوں کی نامی گرامی شخصیات جوبھارت میں موجود ہیں ریفرنڈم 2020ء کے آئیڈیا سے لاتعلق ہیں ۔حالانکہ یہ بات بھی حقائق کے برعکس ہے ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سکھ اپنی علیحدہ شناخت کے حوالے سے بہت پر جوش ہیں ۔وہ خود کو بھارتی شہری کہلوانا پسند نہیں کرتے وہ اپنے تشخص کی تلاش میں ہیں ایسا تشخص کہ جس کا تعلق ان کے آزاد وطن سے جڑا ہوا ہو۔

اس کی ایک مثال برطانیہ میں مردم شماری کے موقع پر میں دیکھنے میں آئی جب سکھوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی شناخت کے لئے مردم شماری فارم میں انڈین کی بجائے سکھ کا علیحدہ خانہ شامل کیاجائے۔یہ مطالبہ بہت ہی گونجدار اور پرزور تھا یہاں تک کہ 140برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے اس مطالبے کے حق میں برطانوی محکمہ شماریات کو خط تحریر کردیا تھا ۔
ایک طرف یہ حالات ہیں اور دوسری جانب سکھ فار جسٹس (JSF)نامی تنظیم نے کینیڈا کی ریاستی اسمبلی اونٹوالو کا نٹیکٹ (connecticut)اور امریکی ریاست پنسلوانیا کی اسمبلی سے 1984ء میں سکھوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کے خلاف قرار دادیں منظور کروائی ہیں ۔

اب نیویارک اور اقوام متحدہ میں یہ قرار دادیں منظور کروانے کے لئے مہم چلائی جارہی ہے ۔
اگر چہ بھارت اس مہم کو ناکام بنانے کی بھرپور کو شش کررہا ہے لیکن حالات بتاتے ہیں کہ بھارت کے ہاتھ ناکامی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔اس کابدیہی مطلب یہ ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب بھارت بری طرح سکھوں کے شکنجے میں جکڑاجائے گا اور پھر نہ صرف برہمن کو سکھوں سمیت تمام اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حساب دینا ہو گا بلکہ سکھوں کے الگ وطن کے قیام کا مطالبہ بھی تسلیم کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sukhnon ka aalmi ijtima is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.