عثمان بزدار کتنے دنوں کے وزیراعلیٰ ہیں؟

جمعرات 30 اگست 2018

usmaan bazdar kitney dinon ke wazeer e aala hain
احسان الحق

دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں سیاسی وفاداریاں بدلنا ایک بڑا اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے اسی لئے ان ممالک میں کسی بھی قیمت پر سیاسی وفاداریاں بدلنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میںسیاسی وفاداریاں بدلنا اب ایک عام سی بات ہو گئی ہے اور ہمارے ہاں اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے سیاسی وفاداریاں بدلنے کو کبھی ’’پیٹریاٹ‘‘ اور کبھی فارورڈ بلاک کا نام دے کر جمہوریت کے منہ پر مسلسل طمانچے مارے جا رہے ہیں۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ پاکستان میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کا آغاز1988ء میں ہوا تھا جب اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹوکے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک میں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے دو ایم این ایز رئیس شبیر احمد اور مخدوم احمد عالم انور نے اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے ہوئے اس عدم اعتماد کی حمایت نہ کرنے کا  فیصلہ کیا تھا  اور بدقسمتی سے 30سال گزرنے کے باوجود رئیس شبیر احمدکے خاندان اور ر مخدوم احمد عالم انورکے شہر سے منتخب ہونے والے سیاستدانوں کی جانب سے سیاسی وفاداریاں بدلنے کو سلسلہ آج بھی جاری ہے جس سے ضلع بھر کے عوام میں بد دلی اور تشویش دیکھی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ چند روز قبل اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں پی پی پی نے اس عمل سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا اور اسپیکر کے انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بد قسمتی سے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے اور پہلی دفعہ ایم پی اے منتخب ہونے والے رئیس شبیر احمد کے پوتے رئیس نبیل احمد اور لیاقت پور سے تعلق رکھنے والے پی پی پی ہی کے ایم پی اے غضنفر علی خان نے اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے ہوئے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الہی کو ووٹ دیئے اور یوں رئیس نبیل احمد اور غضنفر علی خان نے اپنے بڑوں کی ’’روایات‘‘ کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں کے عوام کے سر شرم سے جھکا دیئے۔یاد رہے کہ قبل ازیں رئیس شبیر احمد کے فرزند ارجمند رئیس منیر احمد نے بھی 2003ء کے عام انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ پر اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے ہوئے اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کی بیعت کرتے ہوئے پی پی پی پیٹریاٹ میں شمولیت اختیار کی تھی یوں بھونگ کے اس خاندان کی جانب سے سیاسی وفا داریاں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جو نہ جانے کب ختم ہو گا۔
         ضلع رحیم یار خان جہاں سیاسی وفاداریاں بدلنے میںاپنا ایک خاص ’’مقام ‘‘ رکھتا ہے وہاں اس ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس شہر کے بعض خاندانوں پر بڑا دست شفقت رکھتی ہیں جس سے عام سیاسی کارکن ہمیشہ سے ہی احساس کمتری کا شکا ررہے ہیں۔عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم ہو یا خواتین کی مخصوص نشستوں پر خواتین کی نامزدگی ہو یہی خاندان ہمیشہ سے ان سیاسی جماعتوں کی آنکھوں کا تارا رہے ہیںجن میں رحیم یار خان کے گجر، جمال دین والی کے مخدوم اور میاںوالی کے مخدوم گھرانے خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔پی ٹی آئی کی جانب سے حال ہی میں بنائی جانے والی وفاقی اور صوبائی کابینہ میں ضلع بھر سے صرف دو بھائیوں کو ان کابیناووئں میں نمائندگی کے قابل سمجھتے ہوئے میاوالی قریشیاں سے تعلق رکھنے والے مخدوم خسرو بختیار جو قبل ازیں مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے مزے لے چکے ہیں انہیں  پی ٹی آئی کی جانب سے وفاقی وزیر اور انکے حقیقی چھوٹے بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت کو صوبائی وزیر بنایا گیا ہے جس سے وزیر اعظم عمران خان کے اس ویژن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ کہا کرتے تھے کہ وہ جاگیردارانہ اور خاندانی سیاست کے خلاف ہیں جبکہ اسکے علاوہ مسلم لیگ ن کی جانب سے خواتین کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر بھی رحیم یار خان کے ایک خاندان کی تین خواتین کو قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے نوازا گیا ہے جن میں محترمہ عشرت اشرف کو پنجاب اسمبلی انکی بیٹی زیب جعفر اور بھتیجی مائزہ حمید کو قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں دی گئی ہیںجبکہ اس کے علاوہ عام انتخابات میں پی پی پی نے مخدوم سید احمد محمود کو دو بیٹوں مخدوم غلام مرتضی اور مخدوم غلام مصطفی کو قومی اسمبلی جبکہ انکے بھتیجے مخدوم عثمان محمود کو ایم پی اے کی ٹکٹوں سے نوازا تھا اسی طرح پی پی پی نے مخدوم شہا الدین کو ایم این اے جبکہ انکے بھتیجے مخدوم ارتضی محمود کو ایم پی اے کا ٹکٹ دیا تھا جبکہ پی ٹی آئی نے مخدوم خسرو بختیار کو ایم این اے جبکہ انکے چھوٹے بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت کو صوبائی اسمبلی کے دو ٹکٹ یئے تھے جس سے بڑی سیاسی جماعتوں کی جمہوریت پسندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
    پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ترین علاقے ’’تونسہ شریف‘‘کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک عام سے سیاستدان عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب جیسے انتہائی باوقارعہدے پر فائز کرنے کے بعد توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ اس سے جنوبی پنجاب کے عوام کی برسوں پرانی محرومیاں دور ہونے میں بڑی مدد مل سکے گی مگر عثمان بزدار صاحب نے اپنی اننگز کا آغاز ہی بڑی بڑی ’’بونگیوں‘‘ سے کیا ہے جس سے پنجاب کے عوام میں بڑی بد دلی دیکھی جا رہی ہے۔بڑے جیٹ ہوائی جہاز کے ذریعے اپنے خاندان سمیت اسلام آباد کے چکر،خاتون اول محترمہ بشری بی بی کے سابقہ شوہر کاخاور مانیکا کے چکر میں ڈی پی او پاکپتن کی برطرفی اور اپنے ایک دوست سے ملاقات کے لئے ہیلی کاپٹر کے زریعے میاںچنوں آمد،ایک ہسپتال کے مصنوعی دورے کے دوران مریضوں کا ہسپتال میں داخلہ ممنوع کرنا اور پاک پتن کے دورے کے دوران علاقے بھر کی دکانیں بند کرانا اور مزار سے زائرین کو باہر نکالنے جیسے عثمان بزدار صاحب کے فیصلوں نے پنجاب بھر کے عوام کو سکت مایوس کیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے اس ویژن کو دھڑام سے زمین پر گرا دیا ہے جس کا عمران خان دعوی کیا کرتے تھے ۔بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق عثمان بزدار جلدی جلدی میں یہ تمام ’’حرکتیں‘‘ اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں ابھی تک اس بات کا یقین نہیں آ رہا کہ وہ کتنے دنوں کے وزیر اعلی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

usmaan bazdar kitney dinon ke wazeer e aala hain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.