تبدیلی سرکار کا ڈوبتا سورج، بی این پی مینگل اور چوہدری شریف ترین

ہفتہ 20 جون 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار تھے لیکن ایسا کرنے کے لئے ان کا اقتدار میں آنا بہت ضروری تھا پس انہوں نے ملک کی تغیرِ تقدیر کے لئے ہر ممکن کوشش کی حتیٰ کہ اپنے محل نما گھر کو چھوڑ کر چند ماہ کنٹینر پہ گزارے اور کنٹینر پر قیام کے دوران ہی انہوں نے پاکستانی عوام کو نئے پاکستان کا خواب دکھایا اور انہوں نے عوام سے یہ وعدہ کیا کہ جب میں اقتدار سنبھالوں گا تو میں اس ملک میں چند متفرق اصول و قوانین متعارف کرواؤں گا جو نئے پاکستان کو پرانے پاکستان سے بہتر بنائیں گے ویسے تو ان نئے اصول و قوانین کو اتنی بار دہرایا جا چکا ہے کہ ہر پاکستانی حتیٰ کہ ایک سادہ لوح پاکستانی بھی ایک ایک کر کے سارے اصول و قوانین بیان کر سکتا ہے لیکن پھر بھی میں چند اصول و قوانین اور دعوے بیان کرنا لازمی سمجھتا ہوں بقول عمران خان نئے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح بنایا جائے گا، کرپشن کا خاتمہ ہوگا، انصاف کا بول بالا ہو گا، ایک کروڑ نوکریاں دے کر بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے گا، بے گھروں کو گھر مہیا کرنے کے لئے 50 لاکھ گھر تعمیر کئے جائیں گے، کرپشن کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی اور ان سے اربوں روپے لے کر قومی خزانے میں جمع کئے جائیں گے وزیراعظم ہاؤس سمیت تمام گورنر ہاوسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کر دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ
عمران خان کا سبز باغ دکھانے کا انداز اتنا پرکشش تھا کہ وہ عوام کی ایک بڑی تعداد خصوصاً نوجوانوں کا رُخ اپنی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گیا اور نتیجتاً 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف چند اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اتحادی جماعتوں نے خان صاحب کے سامنے کچھ شرائط اور مطالبات رکھے اور خان صاحب نے ان کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

(جاری ہے)

اب ایک طرف تو خان صاحب کو نئے پاکستان کی تعمیر پر کام کرنا تھا جب کہ دوسری طرف اتحادی جماعتوں کی شرائط و مطالبات کو پورا کرنے کے لئے تگ و دو کرنا تھی تاکہ حکمران جماعت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان عدم تعاون کی فضا قائم نہ ہو
آج خان صاحب کی حکومت قائم ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے نہ تو کرپشن کے خاتمے کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں اور نہ ہی ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر۔


اور جہاں تک بات پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کی تھی تو جب سانحہ ساہیوال کی معصوم جانوں کو انصاف نہیں مل پایا تب سے میں تو اس امید کا دامن بھی چھوڑ چکا ہوں کیونکہ ایسا ملک جہاں انصاف کا بول بالا نہیں، میں کیسے مان لوں کہ وہاں پر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے
اس کے علاوہ اس عرصہ کے دوران ایم کیو ایم، (ق) لیگ اور بی این پی مینگل جماعت وغیرہ کے رہنماؤں نے متعدد بار تبدیلی سرکار سے ملاقاتیں کیں اور اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا ہے اور حسبِ معمول تبدیلی سرکار نے ان کے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کا وعدہ کیا۔

اب جب تبدیلی سرکار کے کئی وعدے وفا ہو چکے ہیں اور عملی طور پر ان اتحادی جماعتوں کے مطالبات نہیں مانے گئے تو اب اتحادی جماعتیں اڑان بھرنے کے لئے پر تولنے لگی ہیں
(ق) لیگ اور ایم کیو ایم کا دامن تو پہلے سے ہی تحفظات سے بھر چکا ہے لیکن چند دن پہلے بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی اتحاد سے علیحدگی کا باقاعدہ طور پر اعلان کر دیا ہے سردار اختر مینگل نے کہا کہ ان کی جماعت اسمبلی میں موجود رہے گی اور اپنی بات کرتی رہے گی ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے دو برس تک حکومت کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کا انتظار کیا مزید انتظار بھی کرنے کو تیار ہیں لیکن کچھ شروع تو کیا جائے، دو سالوں میں چار کمیٹیاں بنائی گئی لیکن ان کے مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ ایک لڑکی اپنے لاپتا بھائی کو بازیاب کرانے کے لیے چارسال تک لڑتی رہی، اسی لڑکی نے دو روز قبل خود کشی کر لی، اس کی ایف آئی آر کس کے خلاف درج کی جائے؟
اصل میں سردار اختر مینگل کی پارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ 6 نکاتی ایجنڈے پر اتحاد کیا تھا جس میں لاپتا افراد کی بازیابی سب سے بڑا مطالبہ تھا اس کے علاوہ بلوچستان کے وسائل پر صوبے کے لوگوں کا حق تسلیم کرنے اور افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے مطالبات شامل تھے۔

بی این پی کے اسمبلی میں 4 ارکان جبکہ سینیٹ میں ایک رکن ہے اب علیحدگی کے باوجود حکومت کی سادہ اکثریت برقرار ہے لیکن اب حکومت پر اتحادی جماعتوں کا پریشر بڑھ جائے گا کیونکہ اب دیگر اتحادی جماعتیں بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں گی اور اپوزیشن بھی اپنے سر توڑ کوشش کر رہی ہے کم از کم ایک اور پارٹی حکمران پارٹی سے علیحدہ ہو جائے، اب جیسا کہ چار اتحادی پارٹیوں میں سے ایک پارٹی تو باقاعدہ طور پر علیحدگی کا اعلان کرچکی ہے اور اگر ایک بھی اور پارٹی حکومت کو خیر باد کہہ دے تو نئے پاکستان کی تعمیر یہیں پر رک سکتی ہے اور اپوزیشن جماعتیں کسی بھی وقت عمران خان کو ووٹ آف کانفیڈنس دوبارہ لینے کا کہہ سکتے ہیں
پیپلز پارٹی کے معتبر ذرائع کے مطابق بی این پی مینگل کے سربراہ اور آصف علی زرداری کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے، اختر مینگل کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کی غفلت سے صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے اور ملک کو آپ جیسے سیاست دان کی ضرورت ہے
اس کے علاوہ یہ افواہ بھی سننے میں آ رہی ہے کہ مونس الہی کی جاتی امرا میں مریم نواز سے ملاقات ہوئی ہے چونکہ افواہوں میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہوتی ہے تو مطلب یہ کہ جاتی عمرہ میں بھی تبدیلی سرکار کو بکھیرنے کی تیاریاں اپنے جوبن پر ہیں اور سب سے اہم اور تبدیلی سرکار کے لیے خطرناک بات یہ ہے کہ شریف اور ترین دونوں لندن میں موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ وہاں پر "چوہدری شریف ترین" پلان تیار کیا جا رہا ہے کیونکہ جو آدمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اتحادیوں کو بنی گالا لا سکتا ہے وہ اپنے گہرے دوست اور اپنے درمیان بڑھتے فاصلوں کے بعد حکومتی اتحاد کو بکھیرنے کا بھی سوچ سکتا ہے اور آپ لوگ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہونگے کہ جمعہ کے دن سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا ہے جو کہ حکومت کے لیے باعثِ فکر و شرمندگی ہے
اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کی مختلف مقامات پر اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ "بیٹھک" اس بات کی دلیل ہے کہ تبدیلی سرکار کا سورج غروب ہونے کے آخری مراحل میں قدم رکھ چکا ہے اور کسی بھی وقت لندن، جاتی امرا یا پھر بلاول ہاؤس سے ایسی خبر سننے کو مل سکتی ہے جو تبدیلی سرکار کی سماعتوں میں تپش کا باعث بنے اور نئے پاکستان کی تعمیر کو روک دے۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :