کمال ہے!

پیر 23 ستمبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

 تاریخ شاہد ہے کہ آج تک ہم نے اپنے خیر خواہوں کے ساتھ کبھی بھی اچھا سلوک نہیں کیا اور اپنے خیر خواہوں کی تذلیل کرنے میں بطور قوم ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرنے کی ماضی کی شرمناک روایت کو آج تک تھامے ہوئے ہیں ۔گزشتہ روز گریڈ 20کے ایک سینئر ترین پروفیسر افضل جوئیہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اور جس طرح سے ایک معلم کی توہین در توہین کی گئی وہ پورے معاشرے کے لیے ایک المیہ ہے۔


پروفیسر افضل جوئیہ صاحب کیمسٹری کے ایک قابل ترین پروفیسر ہیں اور اس وقت گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کوٹ چھٹہ میں بطور پرنسپل تعینات ہیں۔پروفیسر افضل جوئیہ صاحب انتظامی معاملات میں ایک سخت گیر انسان واقع ہوئے ہیں اور اصولوں پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے ۔گزشتہ روز ڈیرہ غازیخان میں واقع ایک نجی اکیڈمی کے ہی طالب علم کو طالبات کوہراساں کرنے پر افضل جوئیہ صاحب نے اکیڈمی سے نکالا ،جس پر اشتعال میں آکر اس بدبخت شاگرد نے اپنے لوفر ساتھیوں اور رشتہ داروں کے ہمرا ہ اکیڈمی پر دھاوا بول دیا اور استاد جیسے مقدس رشتے کو پامال کرتے ہوئے استادوں کے استاد افضل جوئیہ صاحب کو تشدد کا نشانہ بناڈالا۔

(جاری ہے)

واقعہ کی اطلاع فوری طور پر متعلقہ تھانہ سول لائن ڈیرہ غازیخان کو بجھوائی گئی،لیکن اپنے ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے تھانہ سول لائن کی پولیس نے موقع پر پہنچنا اپنی شان کے خلاف سمجھا اور الٹا منشی صاحب کی طرف سے پروفیسر صاحب کو فرمان موصول ہوا کہ آپ تھانے آکر درخواست دے جائیں۔تھانے پہنچ کر پروفیسر صاحب کی طرف سے درخواست وصول کرلینے کے بعد منشی صاحب کی طرف سے اگلا حکم صادر ہوا کہ آپ اب گھر جائیں ہم دیکھے گیں کہ درخواست کا کیا کرنا ہے اور ساتھ ہی ہاتھ کے اشارے سے پروفیسر صاحب کو تھانے سے باہرجانے کا بھی حکم دیا گیا۔

اپنے استاد محترم کے ساتھ پیش آئے اس واقع کی سرگزشت سن کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔پروفیسر افضل جوئیہ صاحب ڈیرہ غازیخان میں پروفیسر(ر) فیاض ترین صاحب ،پروفیسر (ر)عبدالغفار صاحب کے بعدکیمسٹری کا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔پچھلے بیس سالوں سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات ان کے علم سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ضلع ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے خود یا اس کے باپ ،بہن بھائی یا دیگر کسی رشتہ دار نے افضل جوئیہ صاحب یا ان کی کسی کتاب یا نوٹس سے استفادہ نہ کیا ہو۔

پروفیسر افضل جوئیہ کے ساتھ پیش آئے اس واقعہ کے بے شمار پہلو ہیں۔اس واقعہ کا سب سے اہم پہلومعاشرتی پستی ہے۔ہم بطور عوام اس قدر پستی کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے اندر احساس ، احترام اور شرم کا رتی بھر اثر بھی باقی نہیں رہا۔مادیت پرستی کا یہ دور آج ہمارے اوپر اس قدر حاوی ہو چکا ہے کہ ہم خود کو دنیا سے سے بہرہ مند کروانے شخصیات کے احترام تک سے غافل ہوگئے ہیں۔

ماں باپ جسمانی طور پر انسان کو دنیامیں وارد کرنے کا ذریعہ ہیں،لیکن انسان کو دنیا سے روشناس کروانے ور انسان بنانے کا ذریعہ اساتذہ اکرام ہیں۔
آج ہم بھول چکے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے لیے" معلم "کے لفظ کو پسند فرمایا تھا۔آج ہم بھول چکے ہیں کہ حضرت علی  نے فرمایا تھا کہ "جس شخص نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے"۔آج تہذیب و تمدن کی یہ جو اتنی بڑی عمارت کھڑی ہے،اس کے پیچھے بھی اُسی شفیق و محترم ہستی کا ہاتھ ہے، جسے اتالیق یا استاد کہتے ہیں۔

دنیا کے بڑے ،بڑے بادشاہ جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی ،وہ بھی اپنے اساتذہ کے سامنے ہمیشہ سر جھکا دیا کرتے تھے۔ "سکند اعظم "یونانی جس نے آدھی دنیا تلوار کی نوک پر فتح کی،مجلس یونان ہو، یا ایوانِ قیصر و کسریٰ ،خلافت بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار ،اندلس کا الحمراہ ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ غرضیکہ سب نے اساتذہ کی بدولت ہی کارنامے انجام دیے۔

ایک مشہور مقولہ ہے "با ادب با نصیب ،بے ادب بے نصیب"۔قانونِ ارتقاء کی رُو سے با علم قوموں کو حق حاصل ہے کہ کم علم قوموں پر حکومت کریں۔اس بات کا زمانہ شاہد ہے کہ ہمیشہ ترقی یافتہ قوموں نے ہی اس زمین پر حکومت کی ہے اور ان پڑھ و گنوار قومیں ان کی ماتحت رہی ہیں ۔آج اگر ہم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم محسنوں اور اساتذہ کا ادب کرنا بھول گئے ہیں۔

ہم سب بہت مصروف لوگ ہیں۔ہمارے پاس معاشرتی مسائل پر بات کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں ہیں۔ہم بھول چکے ہیں کہ جو ہاتھ آج ہمارے اساتذہ کی گریبانوں پر پڑ رہے ہیں وہ عنقریب ہماری گریبانوں پر ہونگے۔اس معاشرتی بے حسی اورڈیرہ غازیخان پولیس کے رویے پر اور ضلعی پولیس کے سربراہ نوجوا ن ڈی پی او صاحب کی معاملے سے چشم پوشی پر اور پولیس اصلاحات کے بلند وبانگ دعوں پر اب ہم یہی کہہ سکتے ہیں، بقول جالب# :
 سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
 علاجِ غم نہیں کرتے ، فقط تقریر کرتے ہیں
 بہ ہر عالم خدا کا شُکر کیجئے ، اُن کا کہنا ہے 
 خطا کرتے ہیں ، ہم جو شکوہ تقدیر کرتے ہیں
 اس قدر شرمناک سانحہ پر بھی تادمِ تحریر کوئی قانون حرکت میں نہیں آیا اور یہ کمال والوں کا حقیقی کمال ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :