شاید کبھی کوئی تعلیم پر بھی توجہ دے

پیر 17 اگست 2020

Ahmed Adeel

احمد عدیل

سمندروں میں ہر دن گندگی کی تہہ بڑھ رہی ہے اور سمندری حیات اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے ․ دنیا کے بیشتر ممالک غریبی کے آخری دوراہے پر کھڑے ہیں ، کیا یہ انصاف ہے کہ جب دنیا کے ایک فیصد لوگ ساری دولت کنٹر ول رہے ہیں عین اسی وقت افریقہ اور انڈیا میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں؟ ہم میں سے ہر شحض جو یہاں موجود ہے اسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم غریبی کو کم کرنے اور ہمارے ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنانے میں کیا رول ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے آپ سے سٹارٹ لینا چاہیے ․
جاپان کے سٹی کاوا کوجی کو میں واقع LA VISTA ہوٹل کے پر تعیش سمی ڈارک ہال میں جہاں ایک طرف oscar de la renta کا سرخ اور بلیک ڈریس زیب تن کیے پیرس کی کسی مہنگی ترین دوکان سے خریدی گئی برانڈڈ پرفیوم کی خو شبو کو ہال میں بکھیرتے ہوئے وہ ماحول دوست بننے ، غریبی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اس کی آ رگنائزیشن ہینڈز ان ٹوکیو کو ڈونیشن دینے کا درس دے ر ہی تھی عین اسی وقت پہاڑ کی چوٹی پر بنے لا وسٹا ہوٹل کے باہر ہونے والی نومبر کی پہلی برف باری نے ماونٹ فیوجی سمیت نظر آنے والے ہر منظر کو دھند لادیا تھا․ سرما کی پہلی برف باری نے گالا ڈنر کے ماحول کو گرما دیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ہر آدمی غریبی اور انوائر مینٹل ایشوز کو بھول کر برف باری کے سحر میں کھو رہا تھا اور اس مدہوشی میں ان ڈرنکس کا بھی ہاتھ تھا جو جاپان کا روایتی ڈریس زیب تن کیے خوش شکل ویٹرسس بغیر رکے سرو کر رہی تھیں $420پر نائٹ والے اس ہوٹل میں جہاں اٹھائیس ڈشوں پر مشتمل بوفے ڈنر سرو کیا جاتا ہے جس میں سمکوڈ ہارس میٹ سر فہرست ہے وہاں غریبی کا ماتم سننے کے لیے ایک سو ساٹھ ڈالر کا گالا ڈنڑ کا ٹکٹ علیحدہ تھا اور این جی او کے مطابق یہ سب غریبوں اور انوائرمنٹ فرینڈلی آرگنائزیشن کو جانا تھا تا کہ ہم اور ہماری آئند ہ آنے والی نسلیں غریبی سے پاک صاف ستھری فضا میں سانس لے سکیں
بنکاک سے ویت نام ائرلائن کی ٹوکیو کے لیے سستی ترین فلائٹ لیتے ہوئے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں لا وسٹا میں ایک رات رکوں گا لیکن اسکی دلفریب لوکیشن اور ماونٹ فیوجی کے ویو کی وجہ سے میں نے ایک اچھے پاکستانی کی طرح کریڈٹ کارڈ کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ایک بھاری اماونٹ پے کرنے کے بعد مجھے ایک رات کے لیے آنرایبل گیسٹ کے رتبے پر فائز کیا گیا جس میں سب سے فرینڈلی آپشن یہ تھا کہ یا تو آپ اٹھائیس ڈشوں پر مشتمل بوفے انجوائے کریں یا پھر فری پاس فار گالا ڈنر ․ چوائس بڑی ایزی تھی جس نے غریبوں اور ماحول کے حق میں پرچم اٹھانے والے سرفروشوں کے سرفروشی سے روشناس کروایا ․
ایسی ہی ہزاروں سر فروش این جی اوز پاکستان میں غریبی سے لے کر حقوق نسواں تک ہر ایک مسئلے کے حل کا پرچم اٹھائے کھڑے ہیں حتی کہ گوگل فیم محترمہ تانیہ ایدروس صاحبہ نے بھی آ کر پاکستان کو ڈ یجیٹل بنانے کی بجائے اپنی ایک ڈ یجیٹل این جی او کا سنگ بنیاد رکھا ہے کیونکہ اس طرح کے کاموں کے لیے پاکستان کی سر زمین بڑی زرخیز ہے یہاں دو نمبری کا بیج بغیر کھاد اور پانی کے بھی بار آور ثابت ہوتا ہے اسی لیے شاید ہم پوری دنیا میں انٹر نیشنل بھکاری ڈکلےئر ہیں حتی کہ ہمارے ان پڑھ اور کریمنل لیڈرز کی بیگمات بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالتے ہوئے اسلام آباد کے مختلف فارن مشنز سے اپنی این جی اوز کے لیے بھیک مانگتی پائی جاتی ہیں․ غریبی ، انصاف اور مدد کے نام پر جو ڈالرز میں امداد لی جاتی ہے اس کا شاید بیس فیصد بھی اصل کام پر خرچ نہیں ہوتا ․ فرسٹ کلاس ائیر ٹریول، فائیو سٹار ہوٹلز، برانڈسو ٹس،پر تعیش ڈنر پارٹیز این جی اوز کا ایک ایسا سچ ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا․ ہمارے یہاں ان لوگوں کو نان ایشوز کو بھی ایشوز بنانے پر ملکہ حاصل ہے لیکن جو ا صل ایشوز ہیں ان پر آواز اٹھانا شاید ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ․ زندگی کی اتک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ آپ کو کسی دوسرے کا درد محسوس کرنے کے لیے اس سطح پر اترنا پڑتا ہے جہاں وہ انسان زندہ ہے ․ غریبی کو آپ تب تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک آپ خود اس غربت کے ذائقے سے روشناس نہ ہوئے ہوں ، بھوکے کی بھوک کے احساس کو سمجھنے کے لیے خود بھوکا رہنا ضروری ہے․ مشعلیں اٹھا کر مارچ کرنے سے نہ تو مسائل کو اجاگر کیا جا سکتا ہے نہ ہی انکا حل تلاش کرنے میں مشعلیں اور مارچ کام آتے ہیں․ جنہوں نے خلق خدا کی خدمت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے انہیں نہ مشعلوں سے کوئی غرض ہے نہ ہی ماڈرن پینا فلیکسز کی ضرورت، وہ لوگ بغیر رکے اپنا وہ فرض ادا کر رہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں․ ایدھی اور ا خوت جیسے ادارے ہزاروں این جی اوز سے زیادہ اس ملک و عوام کی خدمت کر رہے ہیں وہ بھی برانڈڈ سوٹس پہنے بغیر․ پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ غربت نہیں بلکہ ناخواندگی ہے جس پر آج تک کسی این جی او نے دھیان نہیں دیا جب کہ حکومتیں پہلے ہی تعلیم کو یتیم بنا چکی ہیں ․ غربت اس ناخواندگی سب سے پہلی اور بڑی اولاد نرینہ ہے اس کے بعد جرم، بے حسی، خود غرضی اور کرپشن کا نمبر آتا ہے جس کی ہمارے معاشرے میں فروانی ہے شاید کسی دن کوئی نیک نیت این جی او سمندروں کی گندگی کے ساتھ ساتھ جہالت کی گندگی کو تعلیم کی پاکیزگی میں بد لنے کے لیے بھی کوئی قدم اٹھائے ․

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :