”کچھ دوسروں کا خیال کیجیے“

بدھ 25 نومبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

چھو ٹی بڑی درس گا ہوں میں حکومت کی جانب سے تعطیلات کا طو عاً کر ھا ً اعلان کے بعد طلبہ نے خو شیوں کے جو شادیانے بجا ئے اگر یہ حرکت کم سن طلبہ کر تے ناداں سمجھ کر اسے نظر انداز کیا جاسکتا تھا طرفہ تما شا مگر یہ ہے کہ سن بلوغت میں قدم رکھنے والے طلبہ کی جانب سے کتابوں سے ” دوری “ کے فیصلے پر اودھم مچایا جا رہا ہے ، ذرا سو چیے تعلیمی ادارے کس وجہ سے بند کیے جارہے ہیں ایک ایسی آفت ایک ایسی انسان دشمن وبا ایک ایسی آزمائش جس کی وجہ سے انسان جان کی بازی ہاررہے ہیں ، یاس اورغم والم کی سی کیفیت میں تعلیمی اداروں کو حکومت وقت کی جانب سے بہ امر مجبوری بندش کے فیصلے پر اچھے بھلے پڑ ھے لکھے اور شعور کے ہنر سے لیس طلبہ کی خوشی کا اظہا ر ، بات سمجھ سے کچھ نہیں بلکہ زیادہ ہی بالاتر ہے ، تعلیمی اداروں کی بے وقت بندش سے طلبہ وطالبات کا کتنا تعلیمی حرج ہو گا ہمارے کہے پر یقین نہ کیجیے وقت ملے تو کسی درد دل ماہر تعلیم سے اس بابت دریافت کر نے کی زحمت کر لیجیے ، کو رونا کی آفت کی پہلی لہر وطن عزیز کے باسی بھگت چکے ، خط غربت سے نیچے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے کر ب کا وہ عر صہ کس طر ح گزارا، دو وقت کی روٹی کے لیے وہ اور ان کے اہل و عیال کس طر ح سے ترستے بلکتے اور سسکتے رہے ، کورونا کی پہلی لہر میں درمیا نہ درجے کاکما نے والا تباہی کے دہا نے پر پہنچ گیا تھا ،ابھی تک ریڑ ھی بان راج مز دور روزانہ اجرت پر کام کر نے والے ملا زمین پہلے والاقرض کندھوں سے اتارنے کے لیے ہاتھ پا ؤں ما رہے ہیں کہ ناگہا نی آفت نے پھر سے وطن عز یز کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے اگر اب کے بار بھی
 محنت مزدوری کر نے والوں کو گھر بٹھا نے کا فیصلہ حکومت کی جانب سے صادر ہو ا ذرا دل تھا م کر اندازہ لگا لیجیے کہ پسے ہو ئے طبقات کس طرح سے روزی روٹی کاسلسلہ چلا ئیں گے ، جس ملک میں راج مزدور اور مختلف اداروں میں ملا زمت کر نے والے لاکھوں شہر یوں کی گزر اوقات انتہا ئی مشکل سے ہو رہی ہو ، ترقی پذیر معیشت کے حامل ملک کے شہری کاروبار زندگی کو تالے لگنے کے بعد کس طرح سے گزر اوقات کی گاڑی کو دھکا دیں گے ، اپنے قدموں تلے سوچنے کی عادت بطور قوم ترک کر نے کی خو اپنا ئیے اگر آپ کے ہاں مال ودولت کی فراوانی ہے اگر آپ کی جیب نو ٹوں سے ہر وقت لبالب بھر ی رہتی ہے اگر آپ کی آمد ن اربوں کھر بوں میں ہے ، اگر آپ کنا لوں کی کوٹھیوں اور محلات کے مکین ہیں آپ کو آپ کا مال و متاع مبارک مگر ان لا چاروں اور غریبوں کا خیال بھی رکھیے جنہیں دو وقت کی روٹی کی فکر ہر وقت لا حق رہتی ہے جن کے بچے بنیادی ضرویات سے محروم گرمی سر دی جھیل رہے ہیں اگر ان لا چارطبقات کے لیے عملا ً کچھ نہیں کر سکتے ازراہ کرم معاشرے کے ان ” معاشی بیما روں “ کے زخموں اور ارمانوں پر کم از کم نمک پاشی تو نہ کیجیے ، ان کی دال رو ٹی کی راہ میں اپنی خواہشات کے ” سپیڈ بریکر “ کھڑ ے نہ کیجیے ، زندہ قومیں ہر گام ہر پہلو کمزور طبقات کا مفاد مد نظر رکھتی ہیں اجتماعی زندگی پر اثرانداز ہو نے والے فیصلے کر تے وقت ہر طبقے کے معمولات اور مشکلات کو سامنے رکھ کر عوامی سطح پر فیصلے صادر کیے جاتے ہیں ، یہاں مگر عوامی سطح پر اپنے اپنے مفاد کی ڈفلی بجانا عام سی بات ہے محض اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی روش تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے ، حکومت کی سطح پر طلبہ و طالبات کی تعلیمی حرج کا احساس پا یاجا رہا ہے مگر عوامی سطح پر تعلیمی اداروں کی بندش کی فر مائش زور پکڑتی رہی ، مختلف کاروبار زندگی کے بارے میں بھی حکومت وقت کی جانب سے نر م پالیسی اختیار کر نے کی سبیل کی جارہی ہے ، عوامی طبقات سے احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہو نے کی حکومتی درخواست کو مگر عوامی سظح پر وہ پذ یرائی نہیں مل رہی جس کی تو قع ایک باشعور قوم سے باندھی جاسکتی ہے ، اٹلی کی مثال ہما رے سامنے ہے ، اٹلی کے عوام نے بھی کو رونا کی آفت کو ” مذاق “ سمجھا پھر کورونا کی آفت نے اٹلی میں جس طرح سے لا شوں کے ڈھیر لگا ئے اس سے ہر با خبر شہر ی اچھی طر ح آگاہ ہے ، وقت کی باگیں اور اپنی زندگی کی سانسیں بچانیں کا اختیار آپ کے اپنے ہاتھ ہے ، کاروبار کیجیے ، مزدوری کیجیے ، روز مرہ معمولات سر انجام دیجیے مگر ذمہ دار شہری ہو نے کے ناطے حکومت کی جانب سے بیاں کر دہ احتیاطی تدابیر پر بھی عمل پیرا رہیے،اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے ، خدا نہ کر دہ عوام کی بے احتیاطی سے پھر ملک بند ہوا ، آپ کی صحت پر تو شاید اثر نہ پڑ ے مگر بھوک و افلاس سے لڑ نے والے طبقات کے لیے زندگی مزید مشکل ہو جا ئے گی ، عر ض بس اتنی سی ہے اپنے بھلے کو بے شک مقدم رکھیے مگر اسی طر ح دوسروں کے ساتھ بھلا کر نے کی روش بھی اپنا ئیے کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا انسان کو سو کو رونا کی آفت کے دنوں میں ذرا درد دل کا عملی مظاہرہ دکھلا ئیے ، زندگی کے معمولات اور معاملات کو چلانے کی دوا بھی کیجیے اور دعا بھی کیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :