’’ ایف بی آر اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ‘‘‎

جمعرات 12 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی


فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان بارہ ہزار تین سو پاکستانیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام ہو چکا ہے جنہوں نے مجموعی طور پر حکومتِ عمرانیہ کی حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم فائدہ اٹھا کر صرف 2.6 بلین روپے جمع کروا کر کھربوں روپے کے کالے دھن کو سفید یعنی حرام کی کمائی کو انصاف لانڈری کے زریعے حلال کیا ۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ مذکورہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے ان مذکورہ پاکستانیوں نے اپنے کھربوں روپے کے اثاثہ جات کی تفصیلات تا حال ایف بی آر میں جمع نہیں کروائیں ، جن کی مکمل معلومات بھی ایف بی آر کے ریکارڈ میں موجود ہیں ۔

ان پاکستانیوں میں ہمشیرہِ اوّل علیمہ خان سمیت اکثریت پاکستان تحریکِ انصاف کے ان کرم فرماوں کی شامل ہے جنہوں نے عمران خان کو وزیرِا عظم بنانے کے لیئے ان پر سرمایہ کاری کی ۔

(جاری ہے)

جن پر اب تک ایف بی آر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے ۔
 یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مذکورہ محکمے نے ان افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی بلکہ ایف بی آر کے ترجمان نے تو ان افراد سے رابطہ کرنے پر ہی معذوری ظاہر کر دی ہے ۔

گویا حکومت کی مذکورہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا مقصد خزانہ بھرنا نہیں تھا بلکہ صرف دن اور رات کرپشن کا چورن بیچنے والی اس حکومت کے حمایت یافتہ ان چوروں کو کلین چٹ دینا تھا جنہوں نے آگے چل کر بھی پی ٹی آئی پر سرمایہ کاری کرنی ہے ۔
ایک جانب صورتِ حال یہ ہے کہ ایف بی آر ان اٹھارہ مہینوں میں اپنے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر سکا جن میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ بھی شامل تھا،بلکہ ستم یہ ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں آئے معاشی بدحال کاروباری طبقے اور صارفین کو ایڈوانس ٹیکس نوٹس بھیج کر ٹیکس کروانے پر مجبور کیا رہا ہے تو دوسری جانب محض پچاس ہزار روپے کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط عائد ہے جس باعث چھوٹے تاجر بھی سروں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں اور ناقص حکمتِ عملی کے تحت بینک ویران پڑے ہیں ۔


کل ہی خاکسار برطانیہ سے آئے اپنے دوست کے ساتھ ایک بینک کی ایک برانچ میں پہنچے ۔ بینک میں صرف دو ملازمین موجود تھے جبکہ کسی کسٹمر کا نام و نشان تک نہ تھا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پبلک نے اب ایف بی آر کے خوف اور کاغذی کاروائی سے بچنے کے لیئے بینکوں میں پیسے جمع کروانے چھوڑ دیئے ہیں ،صرف یوٹیلیٹی بل جمع کرواتے ہیں یا بیرونِ ملک سے آئی اپنی رقم وصول کرتے ہیں ۔

دوست برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں لیکن انہوں نے ملک سے محبت کے باعث  اس بینک میں بھی پاکستانی شہریت کی حیثیت سے کرنٹ اکاونٹ کھولنے کی خواہش ظاہر کی تا کہ آئندہ وہ برطانیہ سے اپنا زرِ مبادلہ پاکستانی بینک میں بھیج سکیں ،ان کا پہلے سے فارن کرنسی میں ایک غیر ملکی بینک کی برانچ میں اکاونٹ چل رہا ہے ۔ بحرحال اپنا مدعا بیان کرنے کے بعد ہمارے آگے بیان حلفی کے کوئی آٹھ دس صفحات رکھ دیئے گئے،دوست کا شناختی کارڈ، پاسپورٹ نمبر اور برطانیہ کا سوشل سیکورٹی نمبر بھی دینے کو کہا گیا گویا ہم نے بینک سے کسی قسم کا قرضہ لینا ہے ۔


یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ بینک اہلکار کو دوست نے اپنی برطانوی شہریت سے محض نجی طور پر آگاہ کیا تھا، اس لیئے پاکستانی شناختی کارڈ کی بنیاد کر کھولنے کے لیئے پاسپورٹ اور سوشل سیکورٹی نمبر مانگنا حیران کن تھا ۔ اس باعث دوست حیران اور پریشان تھا اور خاکسار بھی اس کے سامنے اس سارے عمل پر شرمندہ تھا ۔ قصہ مختصر کہ ملک کی محبت میں گرفتار دوست نے مذکورہ بینک اہلکار سے اپنا اکاونٹ کھولنے سے معزرت چاہی اور واپس جانے کی اجازت لی، لیکن ملکِ پاکستان ،حکومتِ عمرانیہ کے نئے بینکنگ’’ نظام‘‘ کے باعث بیرونِ ملک سے زرِ مبادلہ بھجنے والے ایک اور فرد سے محروم ہو گیا ۔


یہ مختصر قصہ بیان کرنے کا مقصد صرف اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے بینکوں کے لیئے حالیہ بنائی گئی پالیساں انتہائی طور پر زہرِ قاتل ثابت ہو رہی ہیں ۔ اسی حوالے سے میں ایک سابقہ مضمون میں بھی تفصیل کے ساتھ گزارشات پیش کر چکا ہوں لیکن جب ملک میں پوچھنے والا ہی کوئی نہ تو گلہ ،شکوہ یا کس کے آگے جا کر رویا جائے ،نیا پاکستان میں تو ویسے بھی ہر شاخ پر الو بیٹھا نظر آ رہا ہے ۔


حکومت کی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں میں انتہائی غیر سنجیدگی کے عالم کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے سے ہی فارغ بیٹھی حکومت نے پی آئی اے،پاکستان اسٹیل،ایس ایم ای بینک،اسٹیٹ لاءف انشورنس، نیشنل انشورنس سمیت تیس اداروں کی نجکاری کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے،جبکہ صرف اسٹیٹ لاءف انشورنس کارپوریشن ایسا منافع بخش ادارہ ہے جو ہر سال حکومت کو کروڑوں روپے منافع دے رہا ہے ۔

یہ چار سو ارب روپے مالیت کا ادارہ ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر ستّر کے قریب منافع بخش قومی ادارے، اربوں روپے کی قیمتی زمینیں اور اثاثے بھی اونے پونے داوموں بیچنے کا منصوبہ تیار ہے ۔
با خبر ذراءع کے مطابق ان سودوں کے زیادہ تر ’’ خریدار‘‘ پاکستان تحریکِ انصاف ہی کے وہی کردار ہوں گے جنہوں نے حکومتِ عمرانیہ کی حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم فائدہ اٹھایا ۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ زرداری دورِ حکومت میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے سلسلے میں آٹھ سو ملین ڈالرز ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں مذکورہ رقم اتصلات کمپنی نے اس وقت دینی تھی،لیکن اب ان کا مطالبہ ہے کہ اکتیس پراپرٹیز کی منتقلی کا وعدہ پورا کیا جائے جو ان سے کیا گیا تھا ۔
اس بات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں نجکاری کے عمل کے ساءڈ افیکٹس ملکی معیشت کے لیئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ جب ملک کے حکمران اور دیگر ذمہ داران از خود ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی آڑ میں اپنی دیہاڑیاں لگانے کے چکر میں مصروفِ عمل ہوں تو ہماری ایسی آوازیں کسی نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :