"نواز شریف کے نامراد ملاقاتی"

منگل 1 ستمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

برطانیہ سے آمدہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق وزیرِا عظم نواز شریف سے خصوصی ملاقات کے خواہشمندوں نے اب لندن میں مستقل ڈیرے ڈال دیئے ہیں ۔ با الفاظِ دیگر جب تک نواز شریف سے ان کی ملاقات نہیں ہوتی وہ لندن میں خیمہ زن رہیں گے اور ان کی ہر ممکن کوشش جا رہی رہے گی کہ نواز شریف سے ملاقات کی جا سکے ۔ لہذا لگتا ہے صرف دو سالوں میں ہی ملاقاتیوں کی عقل ٹھکانے آ گئی ہے ۔


لندن میں موجود زراءع کے مطابق، سابق وزیرِا عظم نواز شریف کو اب بھی ’’ملاقاتیوں ‘‘ کی معافیاں اور معذرتیں کسی طور قابلِ قبول نہیں ۔ وہ عدم معافی کا اظہار کوٹ لکھپت جیل اور نیب میں صلح صفائی کرنے کے لیئے آنے والوں کے سامنے برملا واضع اور دو ٹوک انداز میں پہلے ہی کر چکے ہیں ۔

(جاری ہے)

علاج کی غرض لندن میں مقیم سابق وزیرِا عظم سے صلح صفائی کے لیئے مسلسل رابطے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن نواز شریف سرے سے ملنے سے ہی انکاری ہیں ۔

یاد رہے سابق وزیرِا عظم نوازشریف کی جانب سے حالیہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے باعث لندن میں ان کا علاج تاخیر کا شکار ہوا، اور ڈاکٹروں نے انہیں پاکستان سفر کی اجازت نہیں دی ۔ در خواست میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں نے صحت یابی کے بعد اجازت دی تو وہ پہلی فلاءٹ سے پاکستان آئیں گے ۔ گویا نواز شریف کسی بھی صورت ملاقاتیوں سے بات چیت کے لیئے آمادہ نہیں ۔

وہ پاکستان آ کر جیل جانے کی ٹھانے ہوئے ہیں اور یہی ملاقاتیوں کا اصل دردِ سر ہے ۔
یاد رہے، اسی نواز شریف نے ملاقاتیوں کو بار ہا یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ملک کی مضبوط معیشت ہی ملک کے مضبوط دفاع کی ضامن ہے تھوڑا صبر کرو ملکی معیشت کو مذید بہتر ہونے دو کیک بڑا ہو گا تو زیادہ حصہ ملے گا لیکن یہ بات بھی نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے اور پھر جیل میں بھیجنے کے بعد’’ ملاقاتیوں ‘‘ کی سمجھ دانی میں آئی ۔

اب تو سرے سے کیک ہی نہیں جس کی بندر بانٹ کی جا سکے ۔
اس کے علاہ بھی وہ کون سی ایسی حقیقت ہے جو نواز شریف نے ملک اور قوم کے مفاد میں ملاقاتیوں کو پہلے نہ سمجھانے کی کوشش کی ہو; تا کہ ملک کو درپیش موجودہ بحرانوں سے بچایا جا سکتا لیکن بدلے میں انہیں کبھی ڈان لیکس کا تحفہ ملا، کبھی مودی کے یار کے طعنے، غداری کے سرٹیفیکیٹ اور تین مرتبہ اقتدار سے رخصتی کا پروانہ ملا ۔

اب اگر’’ ملاقاتیوں ‘‘ کو اپنے بلنڈرز اور غلطیوں کا احساس ہو ہی چلا ہے تو انہیں ملک کے مفاد میں پک اینڈ چوز کی پالیسی ترک کرتے ہوئے بلاتاخیر، نواز شریف کی بتائی ہوئی تین باتوں پر فی الفور عمل درآمد شروع کر دینا چاہیئے ۔ اسی میں ملاقاتیوں اور ملک کا بھلا ہے ۔
اوّل، آذادانہ اور منصفانہ الیکشن اور اس کے نتیجے میں جو بھی سیاسی جماعت اکثریتی ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے ملک کا اقتدار اس کے حوالے کیا جائے ۔

دوئم، عدلیہ، فوج اور دیگر ادارے سیاست بازی چھوڑ کر اپنی آئینی حدود میں رہ کر صرف اپنی آئینی ذمّہ داریاں ادا کریں اور سوئم جنہوں نے مسلم لیگ ن کے ووٹ الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں منظم پلانگ کے تحت چوری کیئے وہ قوم سے معافی مانگیں ۔ معافی مانگنے کے خواہشمند ملاقاتیوں سے نواز شریف کا یہی ایک مطالبہ ۔ اب بھی وقت ہے ملاقاتی اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈوبنے سے بچانے کے لیئے نواز شریف کے مطالبے پر کان دھریں ۔

کل کلاں کہیں ایسا نہ ہو کہ ملکی مفاد میں نواز شریف کی طرح مقتدرہ یا اسٹبلشمنٹ کی دشمنیاں خود مول لے کر اسے سمجھانے اور اس کی غلطیوں کی نشان دہی کرنے والا بھی اس قوم کو کوئی لیڈر نصیب نہ ہو ۔
آخر میں عرضِ پرواز ہوں کہ نواز شریف کی فیکٹریوں سے بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے ایجنٹ دریافت کرنے اوربھارت میں شریف فیملی کا بزنس برآمد کرنے کے انکشافات، بھارتی وز رائے اعظم، اٹل بہاری واجپائی اور نریندرا مودی کی پاکستان آمد کو غداری اور کلبھوشن کی پھانسی کے التوا ء کو بھارت نوازی قرار دینے والے ملکِ پاکستان کے وفاداران سے پہلے یہ پوچھنا ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل اور ملک میں دہشت گردی کرنے کا بر ملا اعتراف کرنے والے احسان اللہ احسان کو آن لائن کریم ٹیکسی سے فرار کروانے کے بعد ،بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے میں اب کون رکاوٹ بن رہا ہے؟
کوئی کہ رہا ہے کہ کلبھوشن کو بھی ابھی نندن کی طرح سوٹ بوٹ پہنا کر بھارت روانہ کر دیا گیا ہے اور کوئی کہ رہا ہے کہ ابھی بھی اس کی مہمان نواز جاری ہے،لیکن پراسرار خاموشی بہت کچھ بتلا رہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :