"تنہا ہوتی اشٹبلشمنٹ"‎

جمعرات 10 دسمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

پہلے نظام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو آپس میں لڑوا کر تقسیم کرو اور لٹ مار کرو فارمولے کے تحت چل رہا تھا،(یاد رہے یہ مذکورہ فارمولا وہی ہے جو انگریز سامراج کے نمائندے پاکستان سے جاتے جاتے اپنے شاگردوں کو بتا کر گئے تھے ۔ یعنی ڈیواءڈ اینڈ رول ) بار بار ا شٹبلشمنٹ کے دھوکے کھانے کے باعث اور پھر عقل ٹھکانے آ جانے کے بعد اب تقریباً گیارہ بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں ملک میں سول بالادستی کے نفاذ کے لیئے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوئی ہیں گویا ملک کی مقبول سیاسی و مذہبی قیادت اب ایک پیج پر جمع ہے ۔

نواز شریف سے اندر خانہ منت ترلے اور رابطے کرنے کی کوششیں بھی اسی لیئے ہو رہی ہیں کہ اشٹبلشمنٹ کے پاس اب کوئی کرائے کا گدھا موجود نہیں جسے استعمال کر کے نواز شریف کے سول بالا دستی کے بیانئے کا توڑ کیا جا سکے ۔

(جاری ہے)


دوسری جانب حقیقتِ حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کئی سینئر راہنماء عمران خان کے سامنے برملا کہ چکے ہیں کہ اشٹبلشمنٹ کا حد درجہ دم چھلہ بن کر پارٹی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، اور پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے ۔


یقینا عمران خان بھی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اشٹبلشمنٹ کی بیساکھی کے سہارے اقتدار میں آ کر اور پھر مسلسل اشٹبلشمنٹ کی پشت پناہی نے اس کی مقبولیت کو حد درجہ کم کیا ہے، لیکن چونکہ عمران خان ہوسِ اقتدار میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب اگر کل کلاں وہ کھل کر بھی یہ کہیں کہ انہیں اشٹبلشمنٹ نے کام نہیں کرنے دیا اور اپنے دباءو میں رکھا تو کوئی بھی ان کا یہ رونا سننے کا تیار نہیں ہو گا ۔

یہاں اس بات کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ خود عمران خان ماضی قریب میں پاکستانی اشٹبلشمنٹ کے حوالے سے اپنے مختلف انٹرویوز میں کیا کیا کہتے رہے اور اس کی پالسیوں پر کس طرح کڑی تنقید کرتے رہے ۔
یہ عرض کرنے کا مقصد ہے کہ نا قابلِ اعتبار ہوتی ہوئی اشٹبلشمنٹ جس کے ہاتھوں عمران خان بری طرح استعمال ہوئے،اقتدار سے بے دخل ہو کر اب عمران خان بھی اشٹبلشمنٹ کے ہاتھ نہیں آئیں گے،یوں اشٹبلشمنٹ کو مستقبل میں اپنے مفادات کے تحفظ اور چوہدراہٹ قائم رکھنے کے لیئے کوئی سیاسی گھوڑا میسر نہیں ہو گا ۔


جبکہ دوسری جانب ق لیگ، ملی مسلم لیگ، فنگشنل لیگ،شیخ رشید لیگ اور اسی قبیل کی دیگر ٹانگہ پارٹیوں کے تعارف میں اتنا ہی کہ دینا کافی ہے کہ ان کے مالکان یعنی اشٹبلشمنٹ کی ہدایت پر اگر ان کے قائیدین کو گرم سرخ توے پر بیٹھے کو کہا جائے تو زرا تامل نہیں کریں گے اور اگر تپتی ہوئی ریت پر ننگا ہو کر لیٹنے کو کہا جائے تو بخوشی لیٹیں گے بلکہ لیٹ کر کروٹ بھی نہیں لیں گے کہ کہیں مالک خفا نہ ہو جائیں ،اس لیئے مذکورہ پارٹیوں میں اتنا دم خم نہیں کہ انہیں ہانک کر پی ڈی ایم کے خلاف استعمال کیا جائے ۔

اشٹبلشمنٹ کی بنائی گئی مذکورہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس قابل بھی نہیں کہ ان کے زریعے مستقبل میں ’’ قومی سلامتی‘‘ کے نام پر ملک میں کوئی مذید قومی ڈرامہ لگایا جا سکے ۔ لہذا مقتدرہ یا ملکی اشٹبلشمنٹ جہاں ایک جانب سیاستدانوں کے سامنے بری طرح نا قابلِ اعتبار ہوئی ہے تو دوسری جانب اپنی ریاست میں عوام کی نظروں میں بھی شجرِ ممنوعہ بن کر اکیلی کھڑی ہے ۔

پورے ملک میں کوئی بھی اب قومی سلامتی یا بھارت کے حملے کے نام پر کہانیاں یا رام لیلا سننے کو تیار نہیں ۔
دنیا بھر کی مقتدرہ اور اشٹبلشمنٹ اپنے اپنے ممالک کو معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط کرنے کے لیئے کردار ادا کرتی ہے، اپنے اپنے ممالک کے سیاسی اور جمہوری نظام کو مضبوط ہونے دیتی ہے اور کسی دوسری ملک کے مفادات اور ایجنڈے کے لیئے کرائے پر استعمال نہیں ہوتی ، اپنے ملک کے سیاست دانوں کو تقسیم کر کے خود حکومت نہیں کرتی،ملکی پالیسیاں خود نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو بنانے میں مدد کرتی ہے ، اپنے سیاسی مخالفین پر غداری اور ملک دشمنی کے فتوے اور انہیں پھانسیاں نہیں لگواتی،انہیں جلاوطن اور اغوا نہیں کرتی، اپنے ہی ملک کے سربراہوں اور قائدین پر کرائے کے قاتلوں کے زریعے گولیاں نہیں چلواتی،الیکشن میں دھاندلی کروا کر اپنے من پسند افراد کو حکومت میں نہیں لاتی بلکہ اپنے ملک کے عوام کا اعتماد حاصل کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے ملک معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

جبکہ ہماری اشٹبلشمنٹ کا معاملہ بلکل اس کے بر عکس ہے ۔
پاکستان کے ایک اہم سابقہ حصہ بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے جسے ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سے الگ اور دور کیا ۔ بنگالیوں نے بنگلہ دیش بنا یا جس کی شرح نمو، رواں سال میں سات اشاریہ نو تک جا پہنچی ہے جس کی واحد وجہ بنگلہ دیش کی ملکی پالیسیوں میں وہاں کی اشٹبلشمنٹ کی عدم مداخلت ہے جبکہ ہماری معاشی حالت آج کی تاریخ میں افغانستان سے بھی پیچھے ہے کیونکہ تنہا ہوتی اشٹبلشمنٹ یہاں تین سالوں سے ’’نیا پاکستان‘‘ بنا نے میں مصروفِ عمل ہے ۔


آج اگر پاکستانی اشٹبلشمنٹ کے نمائندے لندن میں نواز شریف سے ملاقاتوں میں اپنی باعزت واپسی کے لیئے ان کے ترلے اور منتیں کر رہے ہیں تو یہ اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ اب اشٹبلشمنٹ کے مفادات کے تحفظ کے لیئے ملک میں کرائے کا ایسا کوئی گھوڑا موجود نہیں جو عمران خان کی جگہ لے سکے ،وگرنہ یہ کہاں نواز شریف کے سامنے جھکنے اور ان کے ترلے کرنے والے ہیں ۔


اس ساری صورتِ حال کا نواز شریف کو بخوبی علم ہے جبہی انہوں نے لندن میں ملاقات کرنے والوں پر واضع کر دیا ہے کہ’’ میری زندگی کے محض چند سال باقی ہیں ، بار ہا اقتدار بھی دیکھ چکا ہوں ۔ جو قرض مجھ پر اتارنا فرض ہے اب اسے اتارنا چاہتا ہوں ۔ عوامی بالا دستی کے لیئے پاکستان اور اپنے ملک کے کے عوام کو ہمیشہ کے لیئے اشٹبلشمنٹ کے دھوکے اور اس کے چنگل سے نکالنے کی جو جدوجہد شروع کی ہے، اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کے دم لوں گا‘‘ ۔ با الفاظِ دیگر میاں صاحب نے صاف صاف کہ دیا ہے کہ بورے اور اس کے چیلوں کو اس کے گھر پہنچا کر دم لوں گا،ان کی کسی ایک بات پر بھی اعتبار نہیں کروں گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :