"ایجنڈا عمرانیہ اور غیر ملکی قرضہ جات"‎

منگل 13 اپریل 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

ایک غیرت مند لیڈر اپنے مالکوں کی جانب سے مہیا کیئے گئے اسپانسرڈ کنٹینر پر ڈھٹائی سے کھڑا ہو کر دعویٰ کرتا تھا کہ قرضہ لینے کے بجائے خود کشی کرنے کو ترجیح دوں گا،اور اس کے ڈی چوکی ٹھمکے لگاتے ہوئے تالیاں بجاتے تھے۔تبدیلی کے حالیہ تین سالوں میں ملک کو کس قدر غیر ملکی قرضوں میں جکڑا کر سامراج کا غلام بنا دیا گیا ہے، آج وہ ہم سب کے سامنے ہے لیکن پھر بھی نہ خود کشی کی گئی اور نہ ہی تبدیلی کا کیڑا مرا ہے ۔

    
درج ذیل رپورٹ ملاحظہ فرمایئے اور پھر عام پبلک کے ساتھ ڈی چوکی بھی مہنگائی کے ایک نئے طوفان کا سامنا کرنے کے لیئے تیاررہیں ،کیونکہ آپ کی کھالوں کو ادھیڑ کر یہ سارا قرضہ واپس کیا جائے گا۔یہ سوال پھر اپنی جگہ موجود رہے گا کہ آخر اتنا سارا قرضہ کہاں گیا ہے؟ اور کس مد میں خرچ ہوا ہے؟
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 90ارب 12کروڑ 40لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق پاکستان پر پیرس کلب کے ممالک کا واجب الادا قرضہ 11547ارب 54کروڑ 70لاکھ ڈالر، نان پیرس کلب ممالک 21873ارب 87کروڑ 30لاکھ ڈالر، کثیر الجہتی ادارے 33ارب 74کروڑ 10لاکھ ڈالر، کمرشل 9ارب 63کروڑ 80لاکھ ڈالر، بانڈز 5ارب 83کروڑ 20لاکھ ڈالر، اور آئی ایم ایف کا قرضہ 7ارب 49کروڑ 30لاکھ ڈالر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر نان پیرس کلب کے تحت چین کا واجب الادا قرضہ 18ارب 2کروڑ 90لاکھ ڈالر، سعودی عرب 95کروڑ 40لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات 2ارب 2کروڑ 80لاکھ ڈالر، چین کمرشل 6ارب 73کروڑ 50لاکھ ڈالر اور دیگر ممالک کا 2ارب 90کروڑ 30لاکھ ڈالر واجب الادا ہے۔

پاکستان نے رواں مالی سال 21ارب 55کروڑ 10لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ آئندہ مالی سال 14ارب 70کروڑ ڈالر واپس کرنا ہوں گے۔ اس میں تیل کی سہولت بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے لحاظ سے اس وقت 92.90فیصد ہے جو قرضہ ایکٹ کے تحت 60فیصد یا اس سے کم ہونا چاہئے۔
واضع رہے کہ  موجودہ حکومت کی اپنی وزارتِ خزانہ کی رپورٹس اور اعداد و شمار کے مطابق سابق نواز شریف حکومت آئی ایم ایف کو خیر آباد کہ چکی تھی اور اس ضمن میں اسّی فیصد قرضہ واپس ادا کیا جا چکا تھا۔

اس بات کا اظہار موجودہ حکومت کی جانب سے ایک اسمبلی اجلاس میں بھی کیا گیا تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ موجودہ زمانے میں ممالک پر قبضہ کرنے کے لیئے راکٹوں اور میزائلوں سے حملے نہیں کیئے جاتے،ممالک کی معیشتوں کو ڈانوں ڈول کیا جاتا ہے۔ ملکِ پاکستان کے گھٹنے ٹیکنے کے لیئے موجودہ ون پیج رجیم کو مسلط کیا گیا،پوری منصوبہ بندی کر کے دھڑا دھڑ قرضے ملک پر چڑھائے گئے،ملک کو انتہائی مقروض کیا گیا اور اب دائیں بائیں سے عوام کی زہن سازی کے لیئے خوشحال عوام اور ملک کے لیئے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے یا اسے عالمی مالیاتی اداروں کے گروی رکھ کر قرضے معاف کرانے کی باتیں مارکیٹ میں پھیلائی جا رہی ہیں۔


اس بات کو دوبارہ زہن نشین کر لیجئے کہ ملکِ پاکستان کی معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں جا چکی ہے،اورعوام کی روز مرہ استعمال میں ہونے والی اشیائے خورد و نوش کے نرخ آئی ایم ایف کی ہدایت پر مقرر کیئے جا رہے ہیں،جبکہ بجلی،اور سوئی گیس کی قیمتیں دو سال سے مذکورہ مالیاتی ادارہ فکس کر رہا ہے۔  ایجنڈا عمرانیہ کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات،وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کی دسترس میں جا چکے ہیں اور مذکورہ اداروں کی تمام تر پالیساں آئی ایم ایف کے اہلکار بنا اور پھر انہیں لاگو کر رہے ہیں۔  
  اگر کسی کو میری گزارشات کا  یقین نہیں تو مذکورہ اداروں کے کسی پاکستانی اہلکار سے اس بابت پوچھ کر تسلی کر سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :