اُس کا جسم اُس کی مرضی کیوں نہیں

جمعرات 12 مارچ 2020

Ali Sultan

علی سلطان

وہ تینوں لوگ جو میرے دوست بھی تھے مجھے اس بات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رھے تھے کہ عورت مارچ کا کوئی جواز نہیں بنتا اور یہ جتنی بھی عورتیں اس سب میں شامل ہیں اچھی خواتین نہیں ہیں ۔میرا جسم میری مرضی ایک ناپاک نعرہ ہے جو ملک میں بے حیائی اور فحاشی کا سبب بن رہا ہے ۔لیکن میں اس بات پر اُن سے اتفاق نہیں کر رہا تھا اور اپنی بات پر قائم تھا کہ اگر مرد کے جسم پر اُس کی مرضی ہے تو عورت کو اپنی ذات پر اپنے جسم پر مرضی کرنے کا حق کیوں نہیں لیکن میں بھول گیا تھا کہ ہم انا پرست مردوں کے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں صرف مرد کی مرضی چل سکتی ہے وہ جو کرتا ہے وہی ٹھیک ہے جو سوچتا ہے وہی حقیقت ہے وہ عورت کے کپڑوں کی بناء پر اچھی یا بُری ہونے کی رائے قائم کرتا ہے تو وہ اُس کی مرضی ہے وہ سڑک پر چلتی ہوئی خاتون کو تب تک گھورتا ہے جب تک وہ نظر سے اوجھل نہ ہو جائے تو یہ بھی اُس کی مرضی ہے ، جہاں خلیل الرحمان قمر جیسے لوگ براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں ایک عورت کو غلیظ گالیاں دیتے ہیں اور اُس پر فخر محسوس کرتے ہیں وہ عورت اچھی ہے یا بُری اُس کا کیا ایجنڈا ہے وہ ایک الگ بحث ہے لیکن آپ کسی کو بھی خاتون کے لیے ٹی وی پر بیٹھ کر اتنی غلیظ بے ہودہ زبان استعمال نہیں کر سکتے اور افسوس کی بات تو یہ ہے لوگ سوشل میڈیا پر اُن کے لیے واہ واہ کر رہے ہیں اور ہیرو بنا کہ پیش کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن میرے دوست میری کسی بھی بات سے اتفاق نہیں کر رہے تھے بالاخر اُن میں سے ایک دوست اپنی نشست سے اُٹھے اور اس عورت مارچ کا قصوروار مجھے ٹھہراتے ہوئے چند گالیوں سے نوازا اور دو ٹکے کا آدمی کہہ کر وہا ں سے روانہ ہو گئے
 لیکن یہ سوال میرے زہن میں چھوڑ گئے کہ کیا حقیقی طور پر عورت کے جسم پر اُس کی مرضی نہیں ہو سکتی ۔میں یہاں واضح کر دوں کہ میں میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کی حمایت نہیں کر رہا بلکے میرا ماننا یہ ہے کہ ان نعروں کو زیادہ بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکتا تھا لیکن اس سب کے پیچھے خواتین کی بہتری کی جو سوچ ہے اُس کی حمایت کر تا ہوں او ر میرا یہ ماننا ہے پاکستان میں عورتوں کے مساوی حقوق کے لیے اور اُن مسائل کو حل کرنے کے لیے کام بھی کرنا چاہئیے۔


ہم ایک مسلم ریاست میں رہتے ہیں اور اسلام خواتین کے حقوق کے بارے میں باقی تمام مذاہب کے مقابلے میں زیادہ بات کرتا ہے لیکن خواتین کے تحفظ کے اعتبار سے پاکستان کا شمار دنیا کے بدترین 10ممالک میں ہوتا ہے ، خواتین پر تشدد کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا پانچواں بد ترین ملک ہے ، 2019کے خواتین امن اور سلامتی انڈیکس میں پاکستان 167ممالک میں 164 ویں نمبر پر ہے ہم صرف افغانستان یمن اور شام سے بہتر ہیں ۔

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں عورتوں اور مردوں کی اُجرت کا فرق دنیا میں سب سے زیادہ ہے ، جینڈر ڈویلپمنٹ انڈیکس کے مطابق صنفی فرق میں پاکستان 153ممالک میں 151نمبر پر ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان میں عصمت دری اور خواتین پر تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے 2019میں صرف پنجاب میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے 3881 ، خواتین پر تشدد کے 1126 ، اغوا کے 2600اور غیرت کے نام پر قتل کے 197واقعات سامنے آئے ہیں ۔

ایسڈ سروایورفاوئنڈیشن پاکستان کے مطابق 1999 سے لڑ کر 2019تک 3791خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوئے یہ سب وہ واقعات ہیں جو درج ہوئے ہیں اس کے علاو ہ ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے اس کا اندازا بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔
ان سب اعداوشمار کے باوجود ہمارے ٹویٹر اور فیس بک کے مجاہد عورت مارچ اور خواتین کے حقوق کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں ۔سوال تو یہ ہے اُس کا جسم اُس کی مرضی کیوں نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :