چوہدری نثار کا ”پنجاب مشن“پی ٹی آئی اور وزیر اعظم

بدھ 1 اگست 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

وہ کون سا” بیانیہ“ تھا جس کی بنیاد پر میاں محمد نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم کو قائل کیا اور پھر ”اندھا دھند“ اس ”فلسفہ“کیتقلید میں مریم نے سوشل میڈیا سمیت ہر طرف ”انتہائی جارحانہ“ انداز اپنایا ،سوشل میڈیا کنونشن کے نام پر جلسے کئے”عوام“ جلسوں میں تھی یا کوئی اور…، ”بیانیہ“ جس کی بنیاد پر مریم نواز نے اپنے والد کے ساتھ قدم ملایا کیااتنا”بے ترتیب“ تھا کہ اس کا نتیجہ ”اڈیالہ“ نکلا؟…”بیانیہ“ اتنا غیر اہم تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت انصاف کی طرف سے سزا یافتہ مجرم نواز شریف کے بھائی اور انتہائی کامیاب سیاست دان و سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اسے تسلیم نہ کیا؟ اور ایک عرصہ تک ”خاموشی“ اختیار کئے رکھی…”بیانیہ“ اتنا فضول تھا کہ سابق وزیر اعظم کے بھتیجے حمزہ نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور تخت لاہور میں ”کامیابی“ نہ صرف خود حاصل کی بلکہ اپنے 10/11ہم خیال بھی کامیاب کروانے میں کامیاب ہوگئے،اس” بیانیہ کی اندرونی کہانی“کیا ہے؟ اور ”جیپ والے“ کیوں ”ہارے“ بلکہسیاسی منظرنامہ سے”دور“ ہوگئے آپ کے سامنے رکھنے سے پہلے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات2018 کے حوالے سے کچھ بات ہوجائے۔

(جاری ہے)

پاکستان تحریک انصاف نے جن چند سیٹوں پر ”اپنوں کو نوازا“ تھا وہیں سے نقصان اٹھایا ہے، راقم نے بھی ایک سیاسی کالم میں تجزیہ پیش کیا تھا کہ نارروال سے ابرار الحق، سیالکوٹ سے فردوس عاشق اعوان،لاہور میں حمزہ شہباز کے مقابلے میں جن لوگوں کو ”ٹکٹ“ جاری کئے گئے ہیں وہ میدان سیاست میں”پی ٹی آئی کا کاندھا“ زمین پر لگوا دیں گے۔مجھے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے بطور ”الیکشن ابزرور“ تعیناتی کے دور الیکشن ڈے یعنی9ساون2075ب،10ذیقعد1439بمطابق25جولائی2018 کو جنوبی پنجاب سمیت سیالکوٹ اور نارروال اضلاع میں”سیاسی ماحول“ دیکھنے کا موقع ملا،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عالمی ابزرور کے ساتھ ساتھ ملکی میڈیا کو بھی ”ابزرور کارڈ“ کا اجرا کیا تھا جو ہمیشہ کیا جاتا ہے ۔

الیکشن ڈے پہ صبح سویرے ”سستی“ضرور تھی لیکن سیاسی ماحول میں یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی اس چیز کا ادراک الیکشن کمیشن کو پہلے سے ہی تھا اس لئے اس نے ایک گھنٹہ پولنگ ٹائم بڑھا دیا تھا،سوشل میڈیا پر سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی کی بیگم صاحبہ جو اوکاڑہ سے آزاد امیدوار کے طور پر میدان سیاست میں پہنچ چکی ہیں کہ حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے”ن لیگ“ کو صوبائی سیٹ اپ کے لئے“ہاں“ کر دی، یاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کوئی اور ”آپشن“ ہی نہیں پنجاب کے بیشتر علاقوں میں الیکشن ڈے پر بارش نے موسم خوشگوار رکھا۔

میڈیا ڈور کی الیکشن کے حوالے سے ہونے والی رپورٹنگ میں ایک اہم خبر یہ بھی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم این اے کی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے والے این اے74 سیالکوٹ کی تحصیل پسرور اور پی پی39پسرور کے آزاد امیدوار سابق ایم پی اے منور علی گل کے مخالفین نے ان کے سابقہ دور کے ترقیاتی منصوبے کے تمام” بورڈز اتار کر“ نواحی گاوٴں مالو پتیال کے ”قبرستان“ میں جمع کر دئیے ہیں اور پیغام دیا ہے کہ ن لیگ سے” بغاوت“ کرکے کوئی نہیں جیت سکتا یاد رہے کہ الیکشن ڈے پر مبینہ طور پر ان پر مخالفین نے حملہ کیا اور ان کو سر پر چوٹ آئی تاہم بطور آزاد امیدوار کو اپنی سیٹ کر دوربارہ کا میاب نہ ہوسکے۔

این اے74 پسرور میں ہی الیکشن سے 20دن پہلے پی ٹی آئی جوائن کرنے والے سابق صوبائی وزیر اینٹی کرپشن و سابق سینئر رہنما پیپلز پارٹی کو بھی ”انصاف“ نہ ملا، غلام عباس کے سپورٹران کی طرف سے مبینہ طور پر الزام عائد کیا گیا کہ ن لیگ نے ” آ ر اوز“ کے ساتھ مل کر ”دھاندلا“ کردیا ہے،یاد رہے کہ یہاں سے سابق وفاقی وزیر قانون اور عقیدہ ختم نبوت میں مبینہ طور پر تبدیلی کی پاداش میں وزارت سے مستعفی ہونے والے سیاست دان زاہد حامد کے بیٹے علی زاہد 9سو ووٹوں سے کامیاب قرار پائے ہیں ۔

پورے پاکستان کے الیکشن نتائج پر تو کیا پنجاب بلکہ ”لاہوری سیاست“ پر بھی ایک کالم میں بات نہیں ہو سکتی ہم الیکشن ، نتائج اور اثرات پر بات کرتے رہیں گے۔الیکشن ہو گئے، نتائج آگئے، عمران خان کو بطور وزیر اعظم ملکی و غیر ملکی مبارکبادوں کا سلسلہ بھی جاری ہے،ذرائع کے مطابق عمران خان گیارہ اگست کو بطور وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھائیں گے جبکہ چودہ اگست کو جشن آزادی تقریبات کو سادگی سے مگر انتہائی پر جوش انداز میں منانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔

اب آتے ہیں ”جیپ“ کی طرف، الیکشن سے پہلے ”جیپ“ کو کھلے عام پاک فوج کی جیپ سے جوڑ پر فوج کو ”سیاسی“ کرنے کی ”پلاننگ“ کی گئی جو نتائج سے ظاہر ہے بری طرح ناکام ہوئی۔چوہدری نثار نے الیکشن کے حوالے سے جتنے بھی جلسے یا اکٹھ کئے کسی ایک میں بھی ”ووٹ کو عزت“ دو کی بات نہیں کی بلکہ سیاسی جلسے میں اپنے اور نواز شریف کے سیاسی تعلقات اور کشیدگی پر بات کرتے رہے یہاں تک کہ کسی تقریب میں بھی انہوں نے”ووٹرز“ سے سپورٹ نہیں مانگی، یار لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ چوہدری نثار نے باقاعدہ ”ووٹ“ ہی نہیں مانگے بلکہ یہی کہتے رہے کہ ”ووٹرز “ کو پتہ ہے انہوں نے ووٹ کس کو دینا ہے یعنی اُن کے خیال میں ووٹر کو پتہ تھا کہ ”نثار“ کو ہی ووٹ دینا ہے،یہی خوش گمانی چوہدری نثار کو مہنگی پڑ گئی اور ن لیگی رہنما پرویز رشید کو کہنا پڑا”شیر“ کے بغیر”نثار“ کچھ بھی نہیں، تاہم ایک سیاسی تجزیہ یہ بھی ہے کہ مبینہ طور پر کسی ” مخلوق“ نے چوہدری نثار کو ”خاص ہدف“ دے کر پنجاب میں داخل کیا ہے کہ ”وفاق“ میں ”اچھا“ کام نہ کرسکنے کی جزوی سزا یہ ہے کہ اب آپ دوبارہ ”میٹرک“ پاس کریں تب ”بی اے“ کی ڈگر ی ملے گی۔

اب پاکستان مسلم لیگ کے پلٹ فارم سے ”پنجاب“ میں اپنا ادھورا مشن مکمل کریں گے۔اب پی ٹی آئی ان کو کیا سہولیات فراہم کرتی ہے ،مشن میں ان کے کردار کے حساب سے ہی ”طے“ ہوگا۔الیکشن ڈے سے عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک پاکستان میں بہت سے تبدیلیاں آئی ہیں ان پر بھی بات ہوگی آئندہ کالم میں…!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :