نااہل/نالائق حکمران اور بچارے عوام

پیر 31 مئی 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

جو کہوں گی سچ کہوں گی سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گی کہا جاتا ہے کہ سچ کڑوا لگتا ہے لیکن ان لوگوں کو  جو اپنی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں اور جب اپنے کیے ہوئے وعدوں پر پورا نہ اُتریں تو پھر تنقید  کو  برداست کرنے اور سچ سننے کی ہمت بھی  پیدا کریں حکمرانوں کا ہر نیا دن تنقید کرنے سے شروع ہوتا اور اسی پہ ختم ہو جاتا ہے ہر پارٹی کسی دوسری پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہوتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے عوام پر مہنگائی کا طوفان آیا ہو ان کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو لیکن ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کو کرسی دلوانے میں عوام کے ووٹ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے اور عوام کی یہ نیکی خود اُن  پر ہی بھاری پڑ جاتی ہے اور جس حکمران سے سب کی بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں وہ تو حد درجہ کی نالائق نکلی میرا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا "اپنے ہی گراتے ہیں نشِیمن میں بجلیاں" عمران خان نے سب کی اُمیدوں پر بھرپور پانی پھیرا ہے ایسا پانی کہ شاید اب کسی کی ان سے کوئی اُمید باقی نہ رہی ہو یہ ملکِ  پاکستان میں ایک ایسی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہ رہے ہیں اور  یہ ابھی تک چاہ ہی رہے ہیں اور اسی طرح چاہتے چاہتے پانچ سال  اپنے اختتام کی طرف گامزن ہو جائیں گے جس میں کسی کو انصاف نہیں مل رہا,اور جس طرح کے حالات ہیں ان کے پیشِ نظرِ انصاف تو دور کی بات پیٹ بھرنے کے لیے روٹی نہیں مل رہی اور غریبوں کی اس بھوک کا اندازہ یہ حکمران نہیں کر سکتے کیونکہ  ان کے آگے  ان کی مرضی کے ٹیبل سجائے جاتے ہیں یہ صرف وہی  غریب کر سکتے ہیں جن کو ایک ٹائم کی روٹی کھانے کے لیے بہت  سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ابھی حال ہی میں جو رمضان گزرا عوام  کو روزے کی  حالت میں  اپنے ہی پیسوں کی چینی خریدنے کے لیے تین,چار گھنٹے لائن میں  لگنا پڑتا تھا لیکن میرا سلام ہے ان لوگوں کو جو اتنا کچھ برداست کرنے کے بعد ایٹ ڈا اینڈ ایسے نالائقوں کو حکمران کا  درجہ بھی دیتے ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز بھی نہیں اُٹھا سکتے ہسپتالوں میں اگر کوئی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مر رہا ہے تو اِن کو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ احساس تو انسانوں کے اندر ہوتا ہے آج فلسطین میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے  کیوں ہو رہا ہے اسکی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں  اور سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں صرف حکمرانوں کے ٹویٹ کرنے اور کچھ لوگوں کے بولنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور پھر وزیرِ خارجہ کو یہ بات کہتے "کہ فلسطین کا  مسئلہ تب تک حل نہیں ہو گا جب تک امریکہ نہ کہے" شرم آنی چاہئے کہ اتنے سالوں میں انہوں نے کیا ہی کیا ہے ان میں اتنی وِل پاور ہی نہیں ہے کہ یہ اپنی بات منوا سکیں.

ہم ملکِ پاکستان کو کیوں نہیں ایسا بنانے کی کوشش کرتے کہ دوسرے ملک کہہ سکیں کے کہ پاکستان جب تک کچھ نہیں کہے گا  وہ کام نہیں ہو سکتا اور یہ حکومت ایسی تبدیلی لے کر آئی ہے جو کہ صرف ان کی نظر میں تبدیلی ہے.تقریباً تین سال گزر جانے کے بعد وزراء ہی سلیکٹ نہیں ہو رہے چار دفعہ تو وزیر خزانہ کو بدلہ گیا ہے اور باقی وزراء کو بھی سیم اسی پٹری پے چلایا جا رہا ہے.یہ ابھی تک اِن ڈی پینڈینٹ ہیں کب تک یہ حکمران عوام کے پیسے سے اپنی جائیدادیں بناتے رہیں گے اور پکڑے جانے پر دوسرے ملک بھاگ جائیں گے  اور  جن کو جیل بھیجا جائے ان کو پورا  پروٹوکول دیا جاتا ہے نیز ہر حکومت نالائق ترین حکومت  ثابت ہوئی  بلاول صرف یہ نعرہ لگا کے "بھٹو کل بھی  زندہ تھا بھٹو آج  بھی  زندہ ہے" سندھ کے لوگوں کو بظاہر اپنے اور بھٹو کے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے  اور خفیہ ڈیری فارم بھی کھولا ہوا ہے اس جگہ کی صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ راز افشاء ہوا اور رازافشاء ہوتے ہی ڈیری کے ملازموں کو نوکری سے نکال دیا صرف اس لیے کہ یہ راز افشاء کرنے میں ملازموں کا کردار تھا سندھ کی عوام کو  صاف پانی تک نہ مہیا کرنے والا اور  ان کو صرف بھٹو کے نعروں تک زندہ رکھنے والا آج ڈیری فارم کا مالک ہے لیکن اس سب کے باوجود ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کیوں؟ کیونکہ قانون تو صرف غریب کے لیے ہے ہر حالات میں صرف عوام کو ہی پسنا ہے لیکن یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ ان سب کو ایک ایک چیز کا حساب دینا ہو گا یہ سب عوام  کی نظر  سے تو اُوجھل ہے لیکن ربِ کائنات کی نظر سے نہیں.
آخر میں صرف اتنا کہوں گی:
"مکافاتِ عمل کی چکی چلتی تو آہستہ ہے مگر پستی بہت باریک ہے".

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :