اپنی بقا کی خاطر پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑے گا

جمعرات 2 جولائی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

پچھلے دو سالوں کے دوران خیبر پختون خوا پولیس کے طرز عمل میں ایسی غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہوئیں جس نے پولیس فورس کو صوبہ کے سول انتظامی ڈھانچہ کی اجتماعی معاونت سے جدا اور رفتہ رفتہ عوامی حمایت سے محروم کر دیا،اس کایا کلپ کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن دو بنیادی وجوہ ایسی ہیں جن کا تدارک اب خود پولیس کے سوا اور کسی کے بس میں نہیں رہا۔

پہلی یہ کہ گزشتہ بیس سالوں میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی دوران پولیس فورس کی تربیت کے اصولوں کو بدلنے کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کے ذہنی رویّوں میں اس قدر گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں جس نے فورس کی مجموعی ساخت کو بدل ڈالا،لہذا،خیبر پختون خوا پولیس،اب کیمیونٹی پولیس یا کرائم فائٹنگ فورس نہیں رہی بلکہ اس کی کمانڈ اور سپاہیوں نے دفاعی اداروں جیسا طرز عمل اپنا کر معاشرے کی نازک انگلیوں کو کچل ڈالا ہے (اس موضوع پہ کبھی تفصلاً لکھوں گا) اس کیفیت ذہنی سے نکل کے معمول کے وظائف کی طرف واپس پلٹنے کے لئے پولیس کوخود کوشش کرنا پڑے گی،کوئی اور ادارہ یا قانونی اتھارٹی اس نفسیاتی خلجان سے نجات پانے میں ان کی مدد نہیں کر سکے گا۔

(جاری ہے)

دوسری، پولیس ایکٹ دوہزار سترہ کی منظوری کے ذریعے ہماری سیاسی اشرافیہ نے نہایت انکساری کے ساتھ پولیس فورس کو جوابدہی کے قانونی نظام سے ماورا کرکے ایک طرف معاشرتی ڈھانچہ کے تہہ و بالا ہونے کی راہ ہموار کی تو دوسری جانب اسی لامحدود طاقت نے خود پولیس فورس کی بقاء کو بھی ناقابل یقین خطرات سے دوچار کر دیا،ہمیشہ زیادہ پاور ہی اداروں کی موت کا سبب بنی،اس ایکٹ کو متوازن بنانے کی ذمہ داری بھی خود پولیس کی ہے۔

دوہزار سترہ کے ایکٹ کو منظور کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ ایسا سماج جہاں کے پی ایس پی افسران بھی قانونی اختیارات کے جائز استعمال پہ اکتفا نہیں کرتے وہاں ایک عام رینکر تھانہ دھار اتنے غیرمعمولی اختیارات کو کیسے سمبھال پائے گا۔معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی فورس کی کمانڈ کے لئے صرف تعلیم اور ذہانت ہی کافی نہیں،قانون کی حکمرانی یقنی بنانے کیلئے اس مربوط زاویہ نگاہ کی ضرورت پڑتی ہے جو حیاتِ اجتماعی کی بوقلیمونی کا کامل ادراک کر سکے۔

ابن زیاد جیسے ذہین انسان نے جب کوفہ کی گورنری مانگی تو حضرت عمر نے یہ کہہ کے انکار کر دیا کہ،اے ابن زیاد، کوفہ کے لوگ تیری ذہانت کا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے،اپنی حدود کے اندر رہ کے اختیارات کے جائز استعمال کا شعور ایسی اخلاقی قوت کا رہین ہوتا ہے جو خود اپنے آپ پہ قابو پانے میں کام آتی ہے،ورنہ یہ غیر محدود اختیارات دو دھاری تلوار کی مانند ایک طرف ہدف کو تو دوسری طرف خود صاحب اختیارکے وجود کوکاٹ کے رکھ دیتے ہیں ۔

اے کاش کے پولیس کے اعلی افسران انہی مہمل اختیارات کے عوض اس سویلین فورس کو جنگ دہشتگردی کی آگ میں نہ جھونکتے تو معاشرہ اور پولیس دونوں ناقابل برداشت المیوں اور اس کربناک انجام سے بچ جاتے جس کی طرف اب وہ تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ عوام کے اعتماد اور ریاستی ڈھانچہ کی مجموعی معاونت کے بغیر پولیس فورس ڈلیور نہیں کر سکتی لیکن طاقت کے نشہ میں سرشار پولیس افسران اب عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ کی اجتماعی تلویث سے قائم اس ریاستی توازن سے جان چھڑانے میں سرگرداں ہیں جو پولیس سمیت ہم سب کی بقاء کا ضامن ہے۔

پولیس اب خود مدعی،خود انتظامیہ اور خود ہی منصف بن کے تھانوں اور سڑکوں پہ انصاف دینا چاہتی ہے،جسے یہ سماج برداشت نہیں کرپائے گا۔چنانچہ جنگ دہشت گردی کی حرکیات کے تحت بدلے ہوئے رویّوں کی حامل پولیس فورس جب غیر معمولی اختیارات سے لیس ہو کے اپنی طاقت کے جوہر دیکھانے لگی تو سوسائٹی تڑپ کے رہ گئی،پولیس کے اسی طرز عمل نے ریاستی ڈھانچہ کی چولیں ہلا ڈالیں،صرف ساہیوال کے سانحہ نے ابتداء ہی میں پی ٹی آئی حکومت کی ساکھ پہ جو گھاوٴ لگائے وہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے۔

علی ہذالقیاس،پچھلے دو تین سالوں کے دوران ملک بھر میں بالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص پولیس تشدد کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا جس نے ہماری سماجی زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ خود پولیس فورس کے خلاف بھرپور عوامی مزاحمت کوکھڑا کرنے کے اسباب مہیا کئے۔اونٹ کی کمر پہ آخری تنکا کی مانند پشاور میں عامر تہکالی کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ تشدد نے معاشرے کے تن بدن میں آگ لگا دی جس سے پرانے زخم بھی تازہ ہو گئے،سوشل میڈیا پہ پولیس مظالم کی تشہیرکا سیلاب امنڈ آیا اور اب نفرت کی مہیب لہریں دیر تک فورس کا تعاقب کرتی رہیں گی۔

ان ابلتے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر تھوڑا سا پیچھے ہٹنے کی بجائے ایک بیکار سے جوابی بیانیہ کے ذریعے پولیس والے جدلیات کی دھار کو زیادہ تیز کرنے میں مشغول ہیں،ایسا لگتا ہے، جلد یا بدیر پولیس اور معاشرہ باہم صف آراء ہو جائیں گے۔پولیس افسران تو طاقت کے سرُور میں حالات کی سنگینی کا احساس کھو بیٹھے لیکن اس سول بیوروکریسی نے بھی ،جو ایسے حالات میں کشن کا کام کیا کرتی تھی،ان جھمیلوں سے خود کو لاتعلق کر لیا،جس کے بعد صوبائی حکومت محض بے بسی کی تصویر بن کے رہ گئی،گویا ہماری سیاسی قیادت اور انتظامی ہیرارکی میں کسی بھی سطح پہ ان مسائل کو سلجھانے کی خواہش پائی نہیں جاتی۔

مجموعی طور پہ ہماری سوسائٹی کبھی اتنی بانجھ تھی نہ پولیس کی لیڈرشپ میں باصلاحیت افراد کی کوئی کمی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ اچانک پورا انتظامی ڈھانچہ کم مائیگی سے دوچار کیسے ہو گیا؟ تقسیم اختیارات کی کشمکش میں مبتلا گروہوں کو اس سوال کے مضمرات پہ غور کرنے کی فرصت نہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک خیبر پختون خوا پولیس نہایت خوبصورت روایات کی امین اور عوام دوست فورس سمجھی جاتی تھی،پنجاب،سندھ اور بلوچستان سے آنے والے پولیس افسران بھی اس صوبہ کی سنہری روایات کے احترام میں سرنگوں کر لیا کرتے تھے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران پولیس کے جن بہترین رجال کار نے اپنا خون جگر دیکر پاکستانی معاشرے کے گلستان کوسنوارا،انہیں یہ قوم کبھی فراموش نہیں کر پائے گی ،پولیس کے پہلے شہید اور درویش منش ایس ایس پی اعجاز احمد لنگڑیال سے لیکر ملک سعد اورصفت غیور تک کئی باکردار افسران نہایت دلیری کے ساتھ افق کے اس پار چلے گئے،اس صوبہ کے کم و بیش چودہ سو سے زیادہ پولیس شہدا کی قربانیوں کو فراموش کرنا سماج کے لئے ممکن نہیں ہو گا،پولیس شہدا کی عظمت کے سامنے آج بھی فرط جذبات سے ہمارے سر جھک جاتے ہیں۔

یہاں پنجاب سے آنے والے رفعت پاشا جیسے ذہین پولیس افسر نے بہترین خدمات سرانجام دیکر نام کمایا اور پھر اسی صوبہ کے آئی جی پی کی حیثیت میں ریٹائرڈ ہوئے۔ایم ایم اے دور میں ذولفقار چیمہ جیسے عظیم پولیس افیسر نے جان ہتھیلی پہ رکھ کے نہایت جان فشانی سے سماج کی بنیادی آزادیوں کا دفاع کیا،آج بھی ان کی یادیں ہمیں مضطرب کر دیتی ہیں،حاجی حیب الرحمٰن اور عارف نواز جیسے مایہ ناز پولیس افسران نے بھی یہاں خوشگوار یادیں چھوڑیں۔

اختیارت میں وسعت اور نیوسنس ویلیو رکھنے والوں کی لوگ بوقت ضرورت عزت کرتے ہیں لیکن کچھ ڈلیور کر جانے والے افسران سماج کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔پولیس ایکٹ دوہزار سترہ سے قبل بھی خیبر پختون خوا پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے برابر تھی،اپریل دوہزار سترہ کے بلدیاتی انتخابات کے دوران جب صوبائی وزیر مال علی امین گنڈہ پور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کسی پولنگ بوتھ سے ووٹوں سے بھرے بکس اٹھانے کی جسارت کی تو اس وقت کے ڈی پی او صادق بلوچ نے مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا لیکن اب مبینہ طور پہ اسی وفاقی وزیر کے ایما پر پولیس نے نجی ٹی وی چینل کے ایک کمزور سے رپوٹر کے خلاف تین ایم پی او کی کاروائی شروع کر کے اپنی ساکھ کو داغ دار بنا لی۔

سوشل میڈیا پہ پولیس کو گالیاں دینا اخلاقی غلطی تو ہوسکتی ہے لیکن قانوناً جرم نہیں تھا لیکن پشاور کا ایک معصوم نوجوان جو زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کے کچھ بڑبڑانے کی جسارت کر بیٹھا تو اسے یوں بیدردی سے مارنا،عصمت دری کرنا اور پھرننگا کر کے اسکی ویڈیو وائرل کرنا شرف آدمیت کی تذلیل اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرہ میں آتا ہے،جسے یہ سماج کبھی معاف نہیں کر پائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :