آیا صوفیہ اور جوابی بیانیہ

بدھ 29 جولائی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

سنہ 1829 میں مصر میں کسی فرقہ وارانہ تصادم میں مسلمانوں کے ہاتھوں چند عیسائی کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے پوپ Pius VIII نے برطانیہ کے بادشاہ جارج چہارم کو لکھا،یہ واقعہ معمولی نہیں،معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے تحقیقات کرائی جائے،پوپ کے مشورہ پہ کنگ آف انگلنڈ نے تنازعہ کی حقیقت جاننے کے لئے کچھ ماہرین کو قاہرہ بھجوایا جنہوں نے کافی چھان بین کے بعد بادشاہ کو رپوٹ پیس کی،جس میں کہا گیا،اگرچہ مسلمانوں کی طرف سے بیت المقدس کی فتح کے بعد امید تھی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین تلخیاں ختم ہو جائیں گی لیکن یہاں بڑھتی ہوئی ذہنی تفریق اس امر کی غماض ہے کہ اگلے چند برسوں میں ایک بار پھر صلیبی جنگیں بھڑک سکتی ہیں۔

تحقیقاتی رپوٹ پڑھنے کے بعد پوپ پائیس ہشتم نے کنگ آف انگلنڈ کو مشورہ دیا، اس وقت مسلم دنیا خواب غلفت میں سوئی ہوئی ہے،یہ بہترین وقت ہے کہ کمزور ممالک پر قبضہ کر کے وہاں نسلی،لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم بڑھانے کے علاوہ خلافت کے ادارے اور جہاد کی اصطلاحی اسپرٹ کو ختم کر کے مسلمانوں کی نظریاتی وحدت کو بکھیر دیا جائے۔

(جاری ہے)

چنانچہ 1829 کے بعد برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے اسی منصوبہ پہ کام شروع کیا،مقصد کے حصول کے لئے پہلے بتدریج سمرنا ،قبرص اوراسپین سمیت ملحقہ مملکتوں کو فتح کر کے یوروپ سے مسلمانوں کو نکال دیا گیااور پھر لارنس آف عربیہ جیسے کرداروں کے ذریعے عربوں اور ترکوں کے درمیان نسلی تفریق کی آگ بھڑکا کے خلافت کے ادارے کو تڑوا دیا،مشہور جاسوس ہمفرے کی وساطت سے امت مسلمہ میں نظریاتی تقسیم کی ایسی دراڑیں ڈالی گئیں جسے آج تک پُر نہیں کیا جا سکا۔

کم و بیش اسی زمانہ میں یہاں ہندوستان میں بھی نہایت پراسرار انداز میں دیوبندی اور بریلوی مسالک کی شناخت ابھری جس کے مہلک اثرات آج بھی ہمارا تعاقب کر رہے ہیں۔نشل ازم اور قومی ریاستوں کی تخلیق کا رجحان بھی اسی عہد کی پیداوار ہے،اس سے قبل مسلم ہسٹری میں قومی ریاستوں کا تصور مفقود تھا،یہ تصور اس وقت پیدا ہوا جب پوپ نے کہا،خلافت کے ادارے کو توڑ کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مختلف جھنڈے تھما کے الگ الگ مملکتوں میں تقسیم کر دیاجائے۔

لیکن تمام ترسازشوں کے باوجود اسلامی ریاست یعنی خلافت کا قیام اب بھی مسلمانوں کی آرزوٴں کا محور اور اللہ کی راہ میں جانیں قربان کرنے کی خاطر جہاد کی کشش آج بھی مسلم نوجوانوں کے قلب و روح میں جگمگاتی نظر آتی ہے،یہی دونوں اصطلاحات امت کے درمیان سیاسی وحدت اور باہمی ایثار کا توانا محرک بن سکتے ہیں۔قطع نظر اس بات کے کہ روس کے خلاف افغانیوں کی مزاحمت اور امریکہ کے خلاف طالبان،داعش اور اخوانوں سمیت متفرق جہادی گروہوں کی مہمل جدوجہدکے مقاصد سیاسی تھے یا تزویری،تاہم اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ آج بھی جہاد کے نام پہ لاکھوں مسلمان نوجوانوں نے جس بے جگری کے ساتھ اپنا مقدس خون نچھاور کیا اسکی مثال ڈھونڈنا مشکل ہو گی۔

اب بھی اسلامی اصطلاحات کے اسی نفسیاتی اثر کو کسی ایسی توانائی میں ڈھالا جا سکتا ہے جو اربوں مسلمانوں کو امت واحدہ کی لڑی میں پڑو سکتی ہے۔ علی ہذالقیاس،مغربی طاقتیں فقط جنگیں جیتنا نہیں چاہتی بلکہ ماضی کی طرح آج بھی انکی دفاعی حکمت عملی کا ہدف مسلمانوں کے دلوں و دماغ سے پیغمبر اسلام محمدﷺ کی اتباع اور امت واحدہ کے تصور کو مٹانا ہے۔

اس حقیقت کو علامہ اقبال نے بھی اپنی مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوری میں بیان کیا،جس کا حاصل نظم شعر یہ ہے کہ،
یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
یہودی آج بھی اِس تصور باطل کے اسیر ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی برگزیدہ قوم ہیں،باقی دنیا کو انکی خدمت گزاری کے لئے پیدا کیا گیا،لیکن اسلام نے مسلمانوں کو خیر و شر کا ادراک،خود داری کا احساس اورشرف آدمیت کا شعور دیکر نوع انسانی سے برابری کا سلوک کرنے کا سبق سکھایا، اس وقت بھی صہیونیت کے زیر اثر مغربی طاقتیں جدید سائنسی نظریات کی آڑ لیکر مسلمانوں کے دل و دماغ سے احترام انسانیت کا احساس اور خیر وشر کا ادراک ختم کر کے انہیں ایسی پروفشنل اپروچ کے تابع لانا چاہتی ہیں،جو کسی نظریاتی اصول اور شرعی حدود کو خاطر میں لائے بغیر محض مالی نفع و نقصان کی بنیاد پر یہودیوں و نصارا سمیت سب کے لئے کام کرنے کو تیار ہو جائیں گویا وہ ہمیں میکانکی تمدن میں ڈھال کے ایک ایسے بے شناخت ہجوم میں بدلنا چاہتی ہیں جسکی کوئی اخلاقیات نہ ہو۔

کورونا وائرس وباء کو جواز بنا کے پوری دنیا میں نافذ کئے گئے لاک ڈاون کا مقصد بھی مسلمانوں کی اجتماعی عبادات،جو باہمی ربط کا قدرتی وسیلہ ہیں،کوتحلیل کرانا تھا۔اس وقت ایک خاص حکمت عملی کے تحت پوری دنیا سے ایشیائی باشندوں اورگلف کی ریاستوں سے پاکستانیوں کا بڑے پیمانے پہ انخلاء بھی مسلمانوں کے اندر تفریق بڑھانے کی پالیسی کا جُز ہوگا،گلف کی کئی حکومتوں نے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں مقامی لوگوں کے سوا کسی غیر ملکی کو ملازمت دینے پہ پابندی عائد کر دی ہے۔

ابھی حال ہی میں وزیراعلی پنجاب نے مظفر گڑھ میں انڈسٹریل اسٹیٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا،یہاں گلف سے واپس آنے والے پاکستانیوں کو کھپایا جائے گا گویا خیلجی ممالک سے بڑی تعداد میں کارکنوں کی واپسی کا خدشہ موجود ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ کرونا لاک ڈاون کے بعد ملک بھر کے سرکاری وغیر سرکاری اداروں،مویشی منڈیوں اور مارکیٹیوں میں معمول کی سرگرمیاں بحال ہو گئیں لیکن دینی مدارس اب بھی بند پڑے ہیں۔

دنیا بھر میں ٹرانسپورٹ اورانڈسٹریز کا پیہہ رواں ہو چکا لیکن تیل کی مارکیٹ بدستور گرتی جا رہی ہے۔خلیج کے بڑے ممالک نے اپنی کئی ریگز بند کر دیں،جس سے کساد بازای میں اضافہ ہو گیا۔کورونا لاک ڈاون کے باعث عراق اور شام سمیت قریبی ممالک میں سے مزاحمتی تحریکوں کی بساط سمیٹنے کے عوض ایران کو چین کے ساتھ تجارتی معاہدات کی گنجائش تو مل گئی لیکن یہی پیش دستی عربوں اور ایرانیوں کے مابین نسلی تعصابات کو بڑھائے کا سبب بھی بنے گی۔

لیکن اسی مایوس کن پس منظر کے جُلو میں ترکی نے آیا صوفیہ مسجد کی بحالی کے ذریعہ جوابی بیانیہ پیش کرکے مغرب کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ترکی نیٹو کا فعال ممبر اورایشیا کے لئے یوروپ کے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے،مغربی طاقتوں کے لئے اُس کے خلاف تادیبی کاروائی کے نتیجہ میں مسلم اور عیسائیوں کے درمیاں کبھی نہ تھمنے والی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔

ترکی کو اگر نیٹو سے نکال دیں تو نیٹو ٹوٹ جائے گا،اس میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ ترکی خلافت کی بحالی کی طرف پیشقدمی کرکے مغربی استعمار کی دو سو سالوں پہ محیط مسلم کُش پالیسی کو طشت از بام کرنا چاہتا ہے۔خلافت کا مطلب یہ ہے کہ مسلم بمقابلہ یہود و نصارا۔اگر ترکی نے علامتی طور پہ بھی خلافت کا ادارہ بحال کرلیا تو مسلمانوں کی اکثریت کو نفسیاتی مرکز مل جائے گا، یہی مرکزیت بہت جلد پوری امت کی ہمدردیاں حاصل کر لے گی۔

یہ تو واضح ہے کہ مسلمانوں کو قومی ریاستوں کے دائروں میں منقسم کرکے مغربی طاقتیں جب بھی کسی مسلم ملک کے خلاف کاروائی کرنا چاہیں تو دوسرے مسلم ممالک کو ساتھ ملا لیتی ہیں،عراق کے خلاف کاروائی کے دوران عرب و ایرانی مملکتوں کی حمایت لی گئی،افغانستان پہ حملہ کے وقت پاکستان کو ہمنوا اور پوری مسلم دنیا کو لاتعلق کر دیا گیا۔اگر کسی مسلم ملک نے اسرائیل یا عیسائی مملکتوں کے خلاف کاروائی کی کوشش کی تو پورا کرسچن ورلڈ متحد ہوگیا۔

عالمی طاقتیں کو خطرہ ترکی سے تھا کہ کہیں وہ ماضی کی طرف پلٹ گیا تو مسلمانوں کو متحد ہونے کا مرکز مل جائے گا۔بہرحال،تاریخ کا اٹل اصول یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے۔ماضی کی اس کے سوا کوئی اہمیت نہیں کہ وہ زندہ لوگوں کے کردار و مقاصد کو متاثر کرتا ہے اور تاریخ کی اس کے سوا کوئی اہمیت نہیں کہ وہ ہمارے حال کو درخشاں اور مستقبل کی راہوں کو روش بناتی ہے۔نپولین نے کہا تھا کہ خدا کرے میرا بیٹا تاریخ کا مطالعہ کرے کیونکہ تاریخ ہی صحیح فلسفہ ہے جو پورے ماضی کو صرف ایک تصویر میں سمونے کی کوشش کرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :