اپوزیشن کی سیاسی پیش قدمی

اتوار 4 اکتوبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اگرچہ ابھی تک باقاعدہ کوئی تحریک لانچ نہیں کر سکیں لیکن احتساب کے اداروں کی طرف سے پہلے مولانا فضل الرحمٰن کو آمدن سے زاید آثاثوں کے الزام میں نوٹس کے اجراء کا شوشہ چھوڑ کے سیاسی ماحول کو گرمایا گیا،پھر جب جے یو آئی نے اپنے قائد کی نیب میں طلبی کے خلاف سیاسی مزاحمت کا نعرہ مستانہ لگا کے عوام اور میڈیا کی توجہ حاصل کر لی اور جب مولانا کی نیب میں اِسی متوقع طلبی کو لیکر مرکزی دھارے کے میڈیا میں وسیع پیمانے پہ بحث وتمحیص کے ہنگام نے سماں باندھ لیا تو عین وقت پہ نیب نے نہ بلانے کا موقف اپنا کے مولانا فضل الرحمن کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو پختہ کر دیا،اس بات کا تو ہمیں علم نہیں کہ موجودہ سیاسی بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت اپنی آستین میں کونسی حکمت عملی چھپائے بیٹھی ہے لیکن اعصاب کی اس جنگ میں فی الحال اپوزیشن کا پلڑا بھاری اور فیصلہ سازوں کے دل و دماغ کی کنفیوژن واضح نظر آتی ہے۔

(جاری ہے)

بے یقینی کی اسی کیفیت کو اگر زیادہ دیر تک قائم رکھا گیا تو ملک میں سیاسی عدم استحکام دو چند ہو جائے گا۔سیاسی صورت حال اس قدر پیچیدہ ہے کہ قانونی تشدد اور ریاست کی قوت قہرہ کے ذریعے اصلاح احوال کی ہر کوشش بگاڑ میں اضافہ کا سبب بنے گی۔سنہ 1977 میں سیاسی محاذ آرائی کے نتیجہ میں جب سیاسی خلاء پیدا ہوا تو اُس وقت فوج نے آگے بڑھ کے ملک و قوم کو سمبھال لیا تھا لیکن موجودہ سیاسی بحران نے سارے آئینی،دفاعی اور انتظامی اداروں کو آغوش میں لیا ہوا ہے،چنانچہ یہی کشمکش بلآخر ہمیں ایسی سیاسی دلدل تک پہنچا دے گی جس سے نکلنا دشوار ہو جائے گا،سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس دلدل میں پھنس گئے تو ہمیں اس سیاسی دلدل سے کون باہر نکالے گا؟جبکہ ہم سب کے سب اس دلدل میں پھنسے ہوں گے۔

ہماری حکمراں اشرافیہ کو سیاسی انحطاط کے اسباب سے نمٹنے کی سنجیدہ کوشش کرنا پڑے گی کہیں ایسا نہ ہو جب یہ جنگ ختم ہو تو فاتح اور مفتوح،دونوں نے وہ تمام چیزیں کھو دی ہوں جس کے لئے وہ لڑ رہے تھے۔امر واقعہ یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں قائم حکومت ڈھائی سالوں میں ابھی تک اپنی صفوں کو درست نہیں کرپائی،پی ٹی آئی میں اندرونی تقسیم اس قدر شدید ہوتی جا رہی ہے،جسے مناسب طریقہ سے سمبھالنا یا زیادہ دیر تک چھپائے رکھنا اب ممکن نہیں ہو گا،عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ سینئر حکومتی وزراء اپنی کابینہ کے ساتھیوں پر کھلے عام سازشوں اور باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے تسلیم کیا کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیرترین اور اسد عمر کے مابین اختلافات نے پارٹی مفادات کو باقابل تلافی نقصان پہنچایا،انہوں یہ بھی کہا ہے کہ ”پی ٹی آئی حکومت منظم اصلاحات کے ذریعے نظام کو زیادہ پیشہ ورانہ اور خود مختار بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، عوام نے گری دار میوے اور نٹ بولٹ ٹھیک کرنے کے لئے نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات لانے کے لئے ہمیں یا وزیر اعظم عمران خان کو منتخب کیا تھا لیکن پی ٹی آئی کے حامیوں سمیت ان بیشتر پاکستانیوں کی مایوسی ہوئی،جنھوں نے خان کی پارٹی کو اس امید پہ ووٹ دیکر اقتدار تک پہنچایا تھا کہ قوم کی تقدیربدلنے والا لمحہ بس جلد ہی آنے والا ہے“۔

اگرچہ پارٹی کے اندر ناقابل اختصاص داخلی پھوٹ کے نتائج نہایت خطرناک ہیں لیکن جب وزیر اعظم عمران خان اپنے ساتھیوں کو جوڑنے کی کوشش میں سرگرداں ہوں گے تو ساتھ ہی انہیں اپنے فطری تضادات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ایک سروے کے مطابق "پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب اس بات پہ یقین رکھتی ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی پہلی حکومتوں سے زیادہ خراب ہے "۔

حکومت کے اندر متعدد فالٹ لائنیں ہیں جن میں دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں،بی این پی مینگل،ایم کیو ایم اور جی ڈی اے جیسی اتحادی جماعتوں کے ساتھ عہد و پیماں نبھانے میں تاخیر نے بھی تعلقات میں سرد مہری بڑھا دی،جو کسی بھی وقت علیحدگی میں بدل سکتی ہے،ایسے حالات میں ریاستی اداروں کے لئے حکومت کے ساتھ کوارڈینیشن مشکل ہوتی جائے گی۔لیکن دوسری جانب پیش پا افتادہ سیاستدانوں نے پہلی بار جس کامیابی کے ساتھ اپنے آخری نصب العین کا اظہار کیا،ان کی اسی دلیرانہ سرگرمی نے ہماری سیاسی زندگی میں کلیت پیدا کر دی،دھتکارے ہوئے ان سیاسی رہنماوں کے ہاتھ میں بیشک کوئی مادی طاقت موجود نہیں لیکن وہ اپنے عزم کے ذریعے جبریت کی تسخیر کر سکتے ہیں۔

جمہوریت اپنے انہی گستاخانہ تصورات کے ذریعے اس فانی زندگی کی توجہی کرتی ہے۔نوازشریف کے بعد اب مولانا فضل الرحمٰن کو بھی سمبھالنا دشوار ہوتا جائے گا،مقبول سیاستدانوں کو گرفتاریوں اورجیلوں سے ڈرا کے ڈھب پہ لانا تو اب ممکن نہیں رہا بلکہ اس سے الٹا مزاحمتی کلچرکو پذیرائی ملے گی اور اگر حکومت کی ہنگامی کاروائیوں کے نتیجہ میں باغیانہ رویّوں کو اسی طرح مقبولیت ملتی رہی تو اطاعت گزار قاف لیگ،ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی بھی اپنا لب و لہجہ بدل سکتی ہیں۔

ایسے کشیدہ حالات میں اگرگورنمنٹ نے دو ڈھائی سال مزید گزار بھی لئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا،جس طرح پچھلے دو ڈھائی سالوں میں وفاقی اور صوبائی گورنمنٹس کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دے سکیں،اسی طرح اگلے دو ڈھائی سال بھی داخلی سرگرانی میں کھپ جائیں گے۔جس طرح پیچیدہ معاشی پالیسیوں کی بدولت ہوشرباء مہنگائی نے عام لوگوں کی امیدوں پہ پانی پھیرا،اسی طرح گورنمنٹ کی غیر مفاہمانہ سیاست کی بدولت سیاسی تقسیم بھی اضطراب بڑھاتی رہے گی،حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی تعلقات جلد نارملائز نہ ہوئے تو یہ بحران بتدریج موجودہ سیاسی بندوبست کو مفلوج کر دے گا۔

اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو بڑھتی ہوئی قومی تفریق اور سیاسی انتشار کے ماحول میں سنہ 2023کے عام انتخابات کرانا دشوار ہو جائے گا۔کیا کسی بھی قوت کے لئے پھر اُسی مشق ستم کیش کو دہرانا ممکن ہو پائے گا جسے سنہ دوہزار اٹھارہ میں بروکار لایا گیا تھا؟ دوبارہ ایسا بندوبست ہرگز نہیں ہو پائے گا کیونکہ اگلے ڈھائی سالوں تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہو گا،حکمراں جماعت کی پہلے سی مقبولیت باقی رہے گی نہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات ہمیں نت نئے تجربات کی مہلت دیں گے۔

کسی بھی حکومت کے لئے مخالف سیاسی گروہوں کو مطلقاً ختم کرنا ممکن ہے نہ ریاست سیاستدانوں کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھال سکتی ہے،سیاست کے لئے مرضی کے افراد کی تیاری کا کوئی میکنزم پیدا نہیں ہوا بلکہ یہاں جیسے لوگ دستیاب ہوں انہی سے کام چلایا جاتا ہے،ارسطو نے کہا تھا”سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے مابین مفاہمت کا آرٹ ہے“۔

اگر قومی یکجہتی کے حصول کی خاطر مفاہمت کی کوئی قابل عمل راہ تلاش نہ کی گئی یہ کشمکش بلآخر ملک کی قوت مدافعت کو چاٹ لے گی یہی جدلیات ہمیں شام جیسی شورش سے بھی دوچار کر سکتی ہے،مقبول سیاسی رہنماوں کے لہجہ میں بڑھتی ہوئی تلخی اسی خطرناک رجحان کا پتہ دیتی ہے۔ملکی سلامتی کے لئے لازمی ہے کہ دفاعی اداروں کو پاپولر سپورٹ حاصل رہنی چاہیے بلکہ قومی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے والی سول اتھارٹی بھی عوامی حمایت کے بغیر بڑے فیصلے نہیں کر سکتی،آج اگر ترکی میں صدر طیب اردگان عالمی سطح کے بڑے فیصلے لے رہے ہیں تو اسے قومی اداروں سمیت عوام کی بھرپور مدد حاصل ہے اور یہی اس کی اصل طاقت ہے۔

اس طلسماتی کشمکش کا ایک حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری نواز لیگ کو پارٹی کے اندر پائی جانے والی ذہنی تقسیم پہ قابو پانے کا موقعہ فراہم کرے گی،گویا ریاستی اتھارٹی اپنی ہی حکمت عملی سے اپوزیشن کی بکھرتی ہوئی قوت کو مجتمع کرنے کے سہولت دینے لگی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر بھی کوئی ایسی تحریک اٹھانے پہ قادر نہیں جو پی ٹی آئی حکومت گرا سکے لیکن ٹکراو کی پالیسی پہ عمل پیرا جماعتیں سیاست کو غیر معمولی بحران کی طرف دھکیلنے کا ہدف ضرور پا لیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :