بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور نیو سوشل کنٹریٹ کی ضرورت

ہفتہ 14 دسمبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے پہلے باب میں بنیادی حقوق آرٹیکل 8 سے 28 تک درج ہیں ۔ اقوام متحدہ کے 10 دسمبر1948 کو متفقہ طور پر منظور کئے گے یونیورسل ڈیکلئیریشن آف ہیومن رائٹس میں اقوام عالم کو جن حقوق کو یقینی بنانے کے لئے کہا گیا ہے وہ دستور پاکستان میں درج ہیں۔اسی طرح پاکستان نے انٹرنیشنل کنوینٹ ،سوشل اینڈ پولیٹیکل رائٹس ”جنرل اسمبلی کی قرارداد(XX1) 2200A بتاریخ 16 دسمبر 1966 جسے 23 مارچ 1967 کو نافذالعمل کیا گیاتھا پر عملدرآمد کی اقوام عالم کو مکمل یقین دہانی کروائی ہوئی ہے مگر عملی طور پر تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے جس کو ہماری ریاست وحکومتی ادارے ہمیشہ چھپاتے ہیں اور اس پر ہمارے نام نہاد دانشور ،میڈیا کی آزادی و فریڈم آف سپیچ کے خود ساختہ چمپئین بھی بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں ۔

(جاری ہے)


پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالیاں صرف مذہبی ،صنفی یاجنسی بنیادوں تک محدود نہیں ہے اگر جامع تجزیہ کیا جائے تو اس کا دائرہ بہت وسیع ہے یہاں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جو نہ صرف عالمی قوانین اور آئین پاکستان کے روح کے خلاف ہیں،بلکہ سب سے بڑھ کر اسلامی تعلیمات میں جن بنیادی حقوق کی حفاظت کو ہرصورت یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے اس کی بھی خلاف ورزی ہیں ۔

 خطبہ حجتہ الوداع جسے ہم انسانی حقوق وفرائض کا ابدی و عالمی منشور بھی کہہ سکتے ہیں،رحمت العالمین ﷺ نے فرمایا تھاکہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے یہ فرماکر انسانیت کے لئے رہتی دنیا تک برابری کا رہنما اصول وضح کردیا ہے ۔اسی طرح غلاموں کے حقوق ،خواتین کے حقوق ،جان ومال کی حفاظت کا حق،وراثت سے متعلق احکامات ارشاد فرما کر احترام انسانیت اور حقوق فرائض کا ابدی آئین و پیغام دیا جوانسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔

مگر بدقسمتی سے پاکستان میں معاشی اور سماجی استحصال ،بچوں اور مزدوروں کے حقوق کی عدم فراہمی ،صحت وتعلیم کی معیاری سہولیات کا فقدان ہے ۔اسی طرح ماحولیات پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے فضائی آلودگی اور سموگ خاموش زہر قاتل بن چکی ہے جس پر ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھی حکومت پاکستان کی توجہ دلائی ہے کہ یہ بھی انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے کہ وہ صاف ستھری ،خوشگوار فضا میں سانس لے سکے۔

اگرچہ پاکستان گلوبل وارمنگ کے متاثر ممالک میں سرفہرست ہے مگر ہماری حکومت کی ترجیحات میں یہ بنیادی اور اہم نوعیت کے مسائل نہیں ہیں ۔
اسی طرح اجتماع کرنے کی آزادی ،مذہبی عقائد کی ترویج ،اور آزادی اظہار رائے پر پابندیاں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا ماتم مختلف تجزیاتی رپورٹس میں ہورہا ہے ۔اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی سنجیدہ حلقوں میں بہت تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔

اگر ہم گذشتہ سالوں میں چند عالمی رپورٹس کا جائزہ لیں تو ریاست ،اداروں اور عوام میں ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مثلا پاکستان ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی بنیادوں پر تفریق کرنے والے ممالک کی فہرست میں مسلسل تین سال سے پاکستان دوسرے بدترین ممالک میں شامل ہے۔ 
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں چشم کشا انکشافات اور دل دہلادینے والے اعدادو شمار سامنے آئے ہیں ۔

اسی طرح 2018 میں انسانی حقوق کمیشن نے جمہوری حقوق کی بات کرتے ہوئے عام انتخابات میں نتائج کے اعلان میں تاخیر ،عین موقع پر آر ٹی سسٹم میں خرابی ،پولنگ ایجنٹوں کی غیر موجودگی میں ووٹوں کی گنتی اور فارم 45 کی عدم دستیابی پرسنگین شہبات کی طرف اشارہ کیا تھا مگر 22 کروڑ عوام کے جمہوری مستقبل کی طرف اٹھنے والی انگلیوں کا کسی بھی ادارے کی طرف سے تسلی بخش جواب نہیں آیا ۔

اسی طرح پولنگ اسٹیشن پر فوج کی تعیناتی پر بھی کچھ مخصوص طبقوں کو اعتراض ہے یہ وہ سب حساس معاملات ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر آؤٹ آف دی باکس حل کی ضرورت ہے جسے ہم نیو سوشل کنٹریکٹ بھی کہہ سکتے ہیں نامور فلاسفر ارسطو نے کہاتھا 
{{Man is essentialty good and function of the state is to develop his good faculties into a habit of good action }}
نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل میں ہم یونانی مفکرین کے علاوہ مغربی اور اسلامی فلاسفر زتھامس اکینس ،جان لاک، جین باڈن ،ہیرڈلاسکی ،تھامس ہالبس ،روسو الموردی ،ابن خلدون ،امام غزالی اور علامہ اقبال کے نظریات سے مدد لے سکتے ہیں ۔

1762 میں جین جیکوئیس روسو نے سماجی معاہدے کا نظریہ پیش کیا جسے تھیوری آف سوشل کنٹریکٹ بھی کہاجاتا ہے ۔یہی وہ اہم نظریہ تھاجو انقلاب فرانس کی بنیاد بنا ۔انقلاب فرانس کے بعد بادشاہ کے الفاظ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں کہ ”مجھے روسواور والٹئیر کی تحریریں لے ڈوبیں “ ۔اس لئے معاشرے میں ان حساس موضوعات پر آواز اٹھانا بہت ضروری ہے تاکہ ہم بھی ریاست میں ایک نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل نوکی بنیادیں فراہم کرسکیں ۔

اوکسفورڈڈکشنری میں سوشل کنڑیکٹ کا مطلب ’سماجی بہبود کے لئے باہمی تعاون کا معاہدہ مجموعی فلاح کے لئے انفرادی قربانی کا اقرار یا رضامندی ہے ۔روسونے کہا تھا کہ ’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر آجکل وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے “ ان زنجیروں کو توڑنے کے لئے ہمیں من حیث القوم آواز اٹھانی ہوگی ۔مشہور برطانوی سماجی فلسفی دان جان لاک انسان کی مکمل آزادی پر یقین رکھتا ہے وہ توہر شخص کے بنیادی اور قدرتی حقوق کا ہر حال میں تحفظ چاہتا ہے جو قدرت نے اسکو پیدائشی طور پر ودیعت کئے ہیں ۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف نے 2018 میں گریٹ ڈائیلاگ کی بات کی تھی اسی طرح پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار اور الفاظ میں کیا تھا ۔وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا گذشتہ دنوں تمام اداروں میں ازسرنو ڈائیلاگ کی بات کرنا یہاں بہت معنی خیز ہے یاران نکتہ دان اس کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھا رہے ہیں کہ اس موقعہ پر فواد چوہدری نے یہ نئی بحث چھیڑنے کی کوشش کیوں کی ہے ؟ اس سوال کا جواب تو فواد چوہدری ہی دے سکتے ہیں مگر اصل نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اس وقت شدید نوعیت کےTermoil اور سیاسی انتشار و سماجی تضادات کا شکار ہے جو وطن عزیز کی بقا وسلامتی کے لئے شدید خطرات پیدا کرسکتا ہے ۔

اس ساری صورتحال اور کرائسس سے نکلنے کے لئے ہمیں طرز حکمرانی اور اداروں کی حدود وقیود کو Re define and re structuring کرنی ہوگی جب تک پورے نظام کی اوور ہالنگ نہیں ہوگی اس سیاسی Termoil سے نکلنے کی اُمید نظر نہیں آتی ۔موجودہ فرسودہ نظام ملک کو درپیش سنگین بحرانوں و مسائل کو حل کرنے میں برُی طرح ناکام رہا ہے ۔وطن عزیز کی بقا ،سلامتی ،استحکام اور عالمی برادری میں باوقار مقام دلوانے کے لئے نیا سوشل کنٹریکٹ وقت کی ضرورت ہے ۔

ایسا سوشل کنٹریکٹ جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز آن بورڈ ہوں اور اس سے قومی یکجہتی کو فروغ ملے ۔ اس وقت حالت تو یہ کہ ہم آبادی کنٹرول جیسے سنجیدہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں ہماری آبادی میں جس طرح اضافہ ہورہا ہے آنے والے وقتوں میں یہ ہماری ریاست کے لئے مزید مشکلات پیدا کرے گامگر پالیسی میکرز و ارباب اختیار واقتدار کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں ہے ۔

اب ریاست کو وہ حکمت عملی بنانی ہے جس سے وہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے عوام کو بنیادی سہولیات بھی فراہم کرسکے اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا فرض بھی کماحقہ ادا کرسکے بقول اعتزاز احسن صاحب ریاست کیسی ہوگی ماں کے جیسی تو ریاست کو واقعی ہی ماں والا کردار ادا کرنا ہوگا اور برابری کی بنیاد پر ہر ایک کو مواقع فراہم کرنا یہی اصل انسانی حقوق کی فراہمی ہے اور ہر شہری کا حق بھی ہے اس حق کو محفوظ کرنے کے لئے ریاست کو سازگار ماحول اور فضا بنانی ہوگی ۔

تھامس اکینس نے بلکل درست کہا تھا کہ ریاست کا بنیادی کردار معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے ۔پرامن اور پرسکون اجتماعی زندگی کے لئے وہ اپنے باشندوں میں نہ صرف راست بازی کو فروغ دے بلکہ ان کے درمیان امن اور انصاف قائم کرے شہریوں کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانا اور قانون کی بالادستی بھی ریاست کا بنیادی فرض ہے۔مگر پاکستان میں کچھ لوگ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی بات کو بیرونی ایجنڈہ یا سازش قرار دے کر جان چھڑوا لیتے ہیں تو ان ناعاقبت اندیش دوستوں کے لئے عرض ہے کہ انسانی حقوق محض چند قوانین اور ان سے متعلقہ اصلاحات کو لکھ کر الماریوں میں رکھ دینے کا نام نہیں ہے کہ بس یہ کر دینے سے ریاست بری الزمہ ہوگئی ہے ایسابلکل بھی مہذب دنیا میں کہیں نہیں ہوتا ہے ۔

احترام آدمیت ،وقار انسانی ،مساوات ،انصاف ،انسان دوستی ،آزادی اظہار رائے ،برابری کی بنیاد پر ترقی کے مواقع ،عقیدہ ومذہب کی آزادی ،تعصب اور امتیازی سلوک سے آزادی ،تنظیم سازی کے حقوق ،تعلیم وصحت کی معیاری سہولیات کا حق ،بچوں ،مزدوروں اور متوسط طبقے کے حقوق کی فراہمی یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں اگر ریاست یہ ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی یا کروا نے میں ناکام نظر آرہی ہے تو اس گہنائے ہوئے پس منظر میں ” نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل نو“ کا کافی جواز موجود ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :