کابل میں نئی تاریخ رقم!!!

اتوار 29 اگست 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے عالم کفر کےخلاف جتنی بھی عسکری کامیابیاں حاصل کیں​ ، وہ عددی یا حربی برتری کی وجہ سے نہیں بلکہ قوت ایمانی، جذبہ جہاد اور شوق شہادت کے سبب پائی ہیں ۔ ان میں سے صلیبی جنگوں میں فتح کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ صلیبی جنگوں میں اقوامِ مغرب نے متحد ہوکر پورے مذہبی جوش وخروش سے عالم اسلام کے خلاف آگ اور خون کا کھیل کھیلا۔

  یہ ضرور ہے کہ خلافت عثمانیہ کے زمانہ عروج میں یورپ پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم رہا۔  جب خلافتِ عثمانیہ کو زوال آیا اور پہلی جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد مغرب نے سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کردئیے، اور فلسطین کے قلب میں اسرائیل نامی خنجر پیوست کردیا گیا ۔خلافت کا خاتمہ مسلم دنیاکےلیے صدی کا سب سے عظیم سانحہ تھا ۔

(جاری ہے)

مسلم دنیا پھر کبھی سکھ کا سانس نہ لے سکی ، خون مسلم ارزاں قرار پایا ۔

یہاں تک کہ اکیسویں صدی نے زندگی کے دروازے پر دستک دے دی۔
اوردورجدید میں بھی مغربی دنیا مسلمانوں کے خلاف متحد ہے۔ عالم اسلام کیلئےنئی صدی نئی آزمائشوں کے ساتھ وارد ہوئی ۔ 9/11  واقعے نے افغانستان میں جدید صلیبی لشکرکشی کی راہ ہموارکردی ۔ مسلمانوں کے مذہبی عقائد پرانگلیاں اٹھنے لگیں ، دہشتگردی اورانتہاپسندی کے گھناؤنے الزامات لگے ۔

مسلمانوں اوراسلام کو بدنام کرنے کیلئے مغربی دنیا یک زبان ہوکرزہریلے پروپیگنڈے میں مشغول ہوگئ ۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے  ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا الزام عائد کرکے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئ ۔ پھر شام کو فرقہ واریت کے جال میں پھنسا کرخانہ جنگی میں الجھا دیاگیا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ بش انتظامیہ نے افغانستان اورعراق میں خون کی ہولی کھیلنے کےجو بہانے تراشے ،وہ سفید جھوٹ تھے ۔

   9/11کو مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان تہذیبی تصادم بناکرپیش کیاگیا ، جس کے جواب میں مسلمان دانشور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے صفائیاں دیتے نظرآئے ۔ امریکہ گزشتہ پانچ برس سے افغانستان سے جانے کےلیے حیلے بہانوں کی تلاش میں تھا ۔ ملا عبدالغنی برادر جوکہ افغان طالبان کے بانی راہنماؤں میں ایک ہیں ، انہیں آئی ایس آئی نے 2010 میں گرفتار کیاتھا ، وہ خود امریکہ ہی درخواست پر  2018میں رہا کیے گئے تاکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کی جاسکے۔

مذاکرات کی یہ میز دوحہ میں سجی ، اور وہ افغان طالبان جنہیں دہشتگرد قراردیاجاتا رہا، انہیں اچانک دنیانے ایک فاتح قوت کے طورپر تسلیم کرلیا۔
کہاجاتاہے کہ ان مذاکرات میں امریکہ اور طالبان کےدرمیان کچھ ایسا ضرور طے پایا کہ جس کے نتیجے میں طالبان کو افغانستان پر اتنی برق رفتاری سے قبضہ کرنےمیں امریکہ کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی۔

افغانستان دراصل ایسامیدان جنگ تھا ، جہاں مختلف ممالک نےاپنے اپنے مفاد کی خاطراپنے حریفوں کے خلاف پراکسیز لڑیں  
اور نتیجتاً تمام امریکہ اوراسکے  کوعبرت ناک شکست ہوئی۔ان پراکسیز میں بھارت اور اسرائیل نے بھرپور حصہ لیا تھا کیونکہ امریکہ کااگلا ممکنہ ہدف پاکستان تھا۔ بھارتی میڈیا امریکی افواج کے افغانستان سے نکل جانے پر بےوجہ تو غمزدہ نہیں ہے۔


 افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کا سب سے زیادہ فائدہ سی پیک کو ہوگا۔ کیونکہ اب بھارتی راء افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف مزید استعمال نہیں کرسکے گی ۔
دنیا نے دیکھ لیا کہ جب افغان طالبان فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوئے تو کوئی لوٹ مار اور ہنگامہ آرائی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ طالبان نے خواتین کوحقوق دینے کا بھی وعدہ کیا ۔ یہ پرامن انتقالِ اقتداردراصل افغان طالبان کے خلاف  مغربی میڈیا کے بیانیے کی بھی شکست ہے ۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ افغان طالبان دہشتگرد نہیں ہیں ، ان سے جو کچھ جبراً چھینا گیا ، وہ اسے واپس لینے کے بعد انہوں نے بدلہ لینےکی بجائے عام معافی کا اعلان بھی کردیا جوکہ حسنِ سلوک کی ایک عمدہ مثال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :