آخری دستک !!!

ہفتہ 9 اکتوبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

ہر سیاسی جماعت کی کامیابی اور ناکامی کے کچھ خاص اسباب اور عوامل ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی سیاسی نعرہ یا جماعت محض اتفاقیہ مقبولیت نہیں کرسکتے ۔ اور اس پر ملک کے مجموعی حالات یقیناً اثرانداز ہوتےہیں ، جن میں عوام کی حالت زار اور مزاج ، سیاسی شعور ، شرح خواندگی ، سیاسی و اقتصادی صورتحال جیسے تلخ زمینی حقائق شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بھی خاصے گہرے  اثرات مرتب کرتاہے۔

اگر صورتحال موافق ہوتو عوامی مقبولیت کے حامل سیاسی قائدین اقتدار کے ایوانوں میں نہ صرف پہنچ پانے میں کامیاب ہوجاتےہیں بلکہ اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق بڑی کامیابیاں بھی سمیٹ سکتے ہیں ، بصورت دیگر حکومتوں کا زیادہ تر وقت اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑنے میں گزرجاتاہے ۔

(جاری ہے)

ایسی صورت میں ناتجربہ کار سیاسی قیادت کی سربراہی میں قائم حکومت کےلیے اپنی کارگردگی سے عوام کو مطمئن رکھنا خاصا مشکل ہوجاتاہے۔

در اصل یہ تہمیدی کلمات پاکستانی سیاست کےتناظرمیں نہایت موزوں ہیں ۔ 2018کے عام انتخابات میں کامیابی کے حصول کےلیے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سازگار حالات سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ تبدیلی لانے کے نعرے ، نیاپاکستان بنانے کے وعدے اور ریاست مدینہ کے قیام کے دعووں پر عوام نے دو وجوہات کی بناء پر ہی یقین کیا تھا ، اول یہ کہ سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانیاں عیاں ہوچکی تھیں اور دوسرے عام آدمی کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا ۔

گویا تحریک انصاف پر عوامی اعتماد کافی بڑھ چکا تھا اور عمران خان سے کافی توقعات وابستہ کرلی گئیں۔  چنانچہ حصول اقتدار میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔ لیکن جب عمران خان وزارت عظمیٰ پر براجمان ہوئے ، تو انہیں احساس ہوا کہ وہ تو بغیر تیاری کے ہی آگئے تھے ، چنانچہ پہلا سال تو صورتحال سمجھنے میں گزرگیا ، اور دوسرا سال اس بیانیے کے ساتھ بخیروعافیت تمام ہوا کہ معاملات کو ٹھیک کرنے کےلیے نئی حکومت کو کچھ وقت چاہیے۔

لیکن جیسے جیسے تیسرے برس کا آغاز ہوا ، عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہونے لگا جوکہ یہ بلاوجہ اور بے سبب نہیں ہے ۔ یہ واضح ہوچکا ہےکہ کسی بدعنوان کا کڑا احتساب نہیں​ ہوسکا، اور بدعنوانی کی روک تھام نہیں​ ہوپائی  ، کئ حکومتی وزراء پر بدعنوانی کے سنگین الزامات موجود ہیں ، خسرو بختیار ، علیم خان ، فیصل واوڈا ، شوکت ترین ، مونس الٰہی جیسے اہم وزراء کا پینڈورا پیپرز میں نام آنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔

آپ سابقہ حکمرانوں کا احتساب کرنے آئے تھے مگر اب تو آپ ہی کی کابینہ کے احتساب کےلیے آوازیں اٹھنے لگی ہیں ۔ پنجاب میں گورننس ابھی بہتر نہیں​ ہوسکی ہے ، اصلاحات کے بیشتر وعدے پورے نہ ہوسکے ،اورعوام کےلیےحسب وعدہ کروڑوں نوکریاں دستیاب نہ ہو سکیں ۔ معیشت میں بہتری کے دعووں کے باوجود مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہونے لگا ، غریب کی حالت بد سے بدتر ہونے لگیں ۔

اشیائے خوردونوش کی قیمتوں ،بجلی ، گیس ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بےجااضافے نے عام آدمی کا عرصہ حیات تنگ کردیا۔ پھر  ایسے نئے قوانین لاگو ہونے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا کہ جس نے طلباء و طالبات ، ینگ ڈاکٹرز ، اور صحافی برادری کو سڑکوں پر آنے کےلیے مجبور کردیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ MDCAT, NLE, جیسے امتحانات متعارف کروانے ، سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری جیسے مشورے آخر کون دے رہاہے ؟ یہ کون لوگ ہیں جو طلباء اور ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ معاملات افہام وتفہیم سے حل کرنے کی بجائے تشدد کا مشورہ دے رہے ہیں ؟ کتنے افسوس کی بات کہ ایک طرف TTP جیسے دہشتگردوں کو مذاکرات اور عام معافی کی پیشکشیں ہورہی ہیں مگر میڈیکل کے طلباء اور ینگ ڈاکٹرز کے جائز اور معقول مطالبات سننے کی بجائے لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں ۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) کے قیام کے خلاف شعبہ صحافت کی نمائندہ کئ بڑی تنظیمیں احتجاج ریکارڈ کروا چکی ہیں ، مگر کہیں شنوائی نہیں ہوسکی ۔ ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کےلیے جو طریقے آزمائے جارہے ہیں ، وہ کئ لحاظ سے نامناسب ہیں ۔  ایک طرف یہ باور کروایا جارہا ہےکہ سفارتی کوششوں کےباوجود برطانیہ بانی ایم کیو ایم اور نوازشریف کو پاکستان کےحوالے نہیں کرنا چاہتاہے۔

اورشہباز شریف کو برطانوی عدلیہ سے" کلین چٹ " ملنا ظاہر کرتاہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کررہی ہیں  تو دوسری طرف اندرونی معاملات کو ہینڈل کرنے میں ہونے والی کوتاہیاں عوامی حلقوں کو مسلسل حکومت سے بیزار کررہی ہیں ۔ جنابِ وزیراعظم اگر اپنوں کو ناراض کرلیں گے ، تو غیروں کی سازشوں سے کیسے نمٹیں گے؟ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے ، ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان اپنی سیاسی مقبولیت اس حد تک کھو دیں گے کہ 2023 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :