اخوت کی جہانگیری

ہفتہ 11 اپریل 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

عالمی وباء جہاں بہت سی مشکلات ساتھ لائی ہے وہیں غریب لوگوں کے لیے ایک خوشی کی نوید بن کر آئی ہے پسماندہ گاؤں کے ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں ایک بیوہ بوڑھی عورت اپنی بیٹیوں کے ساتھ رہتی ہے جن کی غربت کا عالم یہ ہے کہ پانی میں روٹی بھگو کر گزارہ کرتے ہیں جب فلاحی تنظیم کا ایک نمائندہ اس بیوہ بوڑھی عورت کے گھر راشن لیکر پہنچا تو اس بوڑھی عورت نے دروازہ کھولتے ہی اس کے ہاتھ میں موجود سامان دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ بھی پہلے والے بھائی کی طرح راشن لیکر آیا ہے۔

اس بوڑھی عورت نے فلاحی تنظیم کے اس نوجوان سے کہا مجھے معلوم نہیں کیا چل رہا لیکن ہمارے لیے عید کا سماں ہے ا س بوڑھی عورت کا خوشی سے لرزتی آواز میں یہی کہنا تھا کہ یہ کوئی عید ہی ہے جو اس قدر خوشیاں لے کر آئی ہے ۔

(جاری ہے)


دنیا کا سب سے بڑا دکھ بھوک ہے اورفاقہ کرنے والوں کے لیے پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے بڑی خوشی اور کوئی نہیں ہو سکتی اس مشکل وقت میں ایک اچھی چیز یہ ہے کہ اس بحران زدہ وقت میں غریبوں کے لیے یہ وائرس خوشیاں لیکر آیا ہے قومیں افراد سے مل کر بنتی ہیں اورافراد چاہیں تو اپنی جدوجہد اور عزم سے ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں اورعالمی وباء کے اس بحران زدہ موقع پر عظیم پاکستانی عوام نے ناممکن کو مل کر ممکن کر دکھایا اس مشکل وقت میں جب پوری دنیا گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی ہے روزگار بند پڑے ہیں لوگوں کو کھانے کے لالے پڑ گئے تھے اوریومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھ کر پریشان تھے لاکھوں افراد بے روزگاری سے متاثر ہو کر فاقے کرنے پر مجبور تھے ایسے وقت میں پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مخیر حضرات کے تعاون سے گھر گھر راشن پہنچانے کی ذمہ داری کا بیڑہ اٹھایااور راشن کی وافر فراہمی سے غریبوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔

 پاکستان کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہی ہے ماہر معاشیات اور پاکستان کے سابقہ وفاقی وزیر ڈاکٹر حفیظ پاشا کے دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جون2018 تک تقریباََ سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی گزار رہے تھے جو اس سال جون تک بڑھ کر آٹھ کروڑ ستر لاکھ ہو جائے گی اور وزیر اعظم عمران خان کے مطابق 25 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے لیکن وائرس کی وجہ سے ہونے والا لاک ڈاؤن غربت کی اس آبادی میں اضافہ کرکے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا تھا لیکن پاکستانی عوام نے اپنے جذبہ خدمت کے تحت غریبوں کی مدد کر کے اخوت کی نئی مثال قائم کر دی مشکل کے اس وقت میں تمام اداروں اور لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی امداد کے ریکارڈ توڑ دیے فنکار،اساتذہ، صحافی، بینکار ، کھلاڑی غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ذاتی طور پر 25 سے لے کر 400گھروں تک راشن پہنچایا اس کے علاوہ فلاحی اداروں میں چھیپا، سیلانی ، شاہد آفریدی ، فکس اٹ اور بہت سی دوسری ویلفئیر تنظیموں نے نہ صرف غریبوں تک راشن پہنچایابلکہ وائرس کی وجہ سے کسی بھی مصیبت یا مسئلے کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے خصوصی نمبرز بھی جاری کیے جس پر رابطہ کر کے لوگ کسی بھی وقت مدد مانگ سکتے ہیں علاوہ ازیں ایدھی فاؤنڈیشن کی بات کی جائے تو یہ ناممکن ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کا کام ہو اور ایدھی فاؤنڈیشن کا ذکر نہ ہو ایدھی فاؤنڈیشن کی تیسری نسل انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے اور اس بحران کے موقع پر بھی ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان کے دکھی لوگوں کی امداد کی بلکہ دوسرے ممالک میں بھی امداد کو یقینی بنایا۔

۔۔۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے ایران کوکرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے دولاکھ امریکی ڈالرز کا امدادی چیک دیا جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن نے ہمیشہ کی طرح اس مشکل وقت میں سب سیاسی اختلافات بھلا کر بغیر کیمرے اور میڈیا کوریج کے لوگوں کی خدمت کر کے دور فاروقی کی یاد تازہ کر دی الخدمت فاؤنڈیشن نے شہر شہر ، گلی گلی میں رات کی تاریکی میں مستحقین کے گھروں میں راشن پہنچایااور اب تک جماعت اسلامی ایک کروڑ روپے کا راشن تقسیم کر چکی ہے اوراسی طرح دعوت اسلامی جو کہ ایک غیر سیاسی مذہبی تحریک ہے اور ان کا کام تبلیغ قرآن و سنت کے ذریعے اشاعت دین کا کام ہے لیکن امت مسلمہ پر پڑنے والی ہر مصیبت پر اپنی مذہبی سرگرمیوں کو فلاحی کاموں میں بدل کر لوگوں کی بے لوث خدمت کی دعوت اسلامی کی انفرادیت کا یہ رخ سب سے اہم ہے کہ وہ ایک مکمل غیر سیاسی تنظیم ہے اور لوگوں کی خدمت سے ان کا کسی قسم کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ دعوت اسلامی بغیر کسی لالچ اور مفاد کے بے لوث اور بے غرض ہو کر فلاحی سرگرمیاں سر انجام دے رہی ہے ان کا طریقہ کار بھی یہی ہے کہ ہر علاقے میں موجود اپنے نمائندگان کے ذریعے مستحقین سے رابطہ کیے بغیر ان کے گھروں پہ راشن پہنچا کر ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھ رہے ہیں۔

۔۔
دعوت اسلامی اب تک ایک لاکھ گھروں میں راشن پہنچا چکے ہیں اور یہی نہیں دعوت اسلامی کا اس وقت سب سے اہم کام جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے وہ تھیلسیمیا کے مریضوں تک خون کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے سندس فاؤنڈیشن کے توجہ دلانے پر دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس قادری کے حکم پہ ان کے پیروکاروں نے کچھ ہی دنوں میں ہزاروں خون کی بوتلیں جمع کروا دیں تھیلیسمیاکے مریض خون کی عدم دستیابی کے باعث موت کی دہلیز پہ کھڑے تھے لیکن ایسے مشکل وقت میں دعوت اسلامی نے گراں قدر کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے بہت سے مرتے ہوؤں کو زندگی کی امید دی تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دعوت اسلامی کی جانب سے8000 خون کی بوتلوں کا عطیہ پہنچ چکا ہے۔

۔۔ 
پاکستانی قوم کی ہمیشہ سے یہ خاصیت رہی ہے کہ یہ مصیبت کی ہر گھڑی میں متحد ہو کر اپنے ہم وطنوں کی مدد کرتے ہوئے اس مصیبت کے خلاف چٹان بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں پاکستان کا شماران گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ خیرات دی جاتی ہے بی بی سی کے ایک مضمون کے مطابق میں یہ اعتراف کیا گیا کہ پاکستانی عوام مالی مشکلات اور مالی مسائل کے باوجود فلاحی کاموں اور امداد کے اعتبار سے دنیا کے دولت مند ممالک کی طرح ہے اگرچہ پاکستان برطانیہ اور کینیڈاجیسے امیر ممالک کی طرح تو نہیں مگر پاکستان میں امدادی کاموں کے لیے دی جانے والی رقم ان ہی ممالک جتنی ہوتی ہے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 98 فیصد لوگ از خود فلاحی کاموں کی مد میں رقم دیتے ہیں اورجو دو فیصد رقم نہیں دے پاتے وہ ایسے کاموں میں ذاتی شرکت سے فلاحی کاموں میں حصہ ڈالتے ہیں۔

۔یہی وجہ ہے کہ اس کڑے وقت میں پاکستان اور پاکستانی قوم کسی بڑی معاشی آزمائش کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہے لوگوں کی طرف سے انفروادی و اجتماعی امداد کا سلسلہ اس کثرت سے جاری ہے کہ لاہور میں گھر گھر راشن پہنچانے والی فلاحی تنظیم کے نمائندے کو ایک بوڑھی عورت نے یہ کہہ کر راشن لینے سے انکار کر دیا کہ اس کے پاس15 دن کا راشن پہنچ چکا ہے اگر فلاحی کاموں اور امدادی سرگرمیوں کا یہ جذبہ اسی طرح سے جاری رہا توان شاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے جب امداد دینے والے تو بہت ہوں گے لیکن امداد لینے والا کوئی نہیں ہو گا
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی 
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :