حکومت کی کشمیر پالیسی اور ملتانی پیر شاہ محمود قریشی کی سفارتکاری

منگل 3 ستمبر 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

30اگست گذشتہ جمعہ کو وزیراعظم پاکستان کی اپیل پر پاکستانیوں نے بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک،، کشمیر آورز،، منایا اور دنیا عالم کو پیغام دیا کہ پاکستانی کل بھی کشمیری عوام کے ساتھ تھے آج بھی ان کے شانہ بشانہ ہیں اور اس وقت تک ان کے ساتھ رہیں گے جب تک مظلوم کشمیریوں کو حق خودارادیّت نہیں مل جاتااس سے پہلے 15اگست کو ہندوستان کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منا کر انتہاء پسند مودی کی وحشّت و بربریّت کا شکار ہونے والے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا انتہاء پسند اور دہشت گرد مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیے جانے کو ایک ماہ مکمل ہونے کو ہے اس ایک ماہ میں کشمیر میں متعین آٹھ لاکھ ہندو فوج نے ظلم و ستم ،وحشّت و بربریّت ،سفاکیّت اور درندگی کی ہر شق مظلوم کشمیریوں پر لاگو کر دی ہے کرفیو سے ان کے بنیادی حقوق سلب ہیں معصوم،بے گناہ اور مظلوم عورتوں کی آہ وبکااورچیخ و پکار سے ہردل مغموم اور ہر آنکھ اشک بار ہے یہاں تک اس درندگی اور سفاکی پر فلک بھی سوگوار ہے۔

(جاری ہے)


مظلوم کی آ ہ جو پہنچی بر فلک تو سن کے کہنے لگے ملک
صد آفریں بشری آہ کے جس نے عرش کو بھی ہلا دیا
مگر افسوس کہ پاکستان میں اقتدار پر براجمان ٹولے نے مظلوم کشمیریوں کے دکھ کو محسوس کیا نہ ان کے کرب کا احساس کیا ہاں مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہندوستان کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غاصبانہ اقدام کے خلاف ایک قرار داد ضرور منظور کی گئی ہے مگر قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر 70سال سے لگائے جانے والے نعروں سے آگے بڑھ کر کوئی ایسا اقدام اٹھانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں جس سے پاکستانی قوم کو یہ کہہ سکے کہ حکومت اور اپوزیشن اس درینہ مسئلہ کے حل کے لئے سنجیدہ ہے یہ ضرور ہو رہا ہے کہ وزیراعظم صاحب کے بیانات اور ٹویٹ مسلسل جاری ہو رہے ہیں کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے مگر اب تک کیا کچھ بھی نہیں جبکہ اس کے برعکس اقوام عالم کی جانب سے انسانیّت کی بقاء، سلامتی اور تحفظ کے لئے وضع کردہ ہر اصول،ہر آئین اور ہر شق کو پاؤں تلے روندنے والا دہشت گرد مودی اپنے جابرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کو جائز قرار دلوانے کے لئے ہر حربہ اور داؤ پیچ آزما رہا ہے اور پاکستانی حکومت عالمی قوانین کے خوف سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کر پا رہی جس سے پاکستان کے ازلی دشمن کو موثر اور منہ توڑ جواب مل سکے سوچ وچار کے دائروں میں مقید عمران خان حکومت نہ تو ہندوستان کے لئے ائیرسپیس بلاک کر سکی، نہ ہندوستان اورافغانستان کے لئے تجارتی راہداری کے راستوں کو بند کر سکی ۔

البتہ اس عرصہ میں ملتان کے گدی نشین کا ہر روز کوئی نہ ایسا بیان ضرور شائع ہوتا ہے جو پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے شرمندگی اور ہزیمت کا باعث بنتا ہے ،کبھی وہ نیپال کے وزیرخارجہ سے بات کرتا ہے ،کبھی صومالی حکومت سے بات کرتا ہے کبھی ایتھوپین حکومت سے رابطہ کرتا ہے اور کبھی اریٹیریا کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ برصغیر میں تباہ کن جنگ کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں کبھی یہ پیر بابا کہتا ہے کہ ہم ،،درباروں،، کی آمدن سے عیاشیاں کرنے والے سب گدی نشینوں اور عوام سے نذرانے وصول کرکے سیاست کرنے والے پیروں کا ایک اکٹھ کرکے یہ فیصلہ کریں گے کہ ہندوستان کو کیسے اور کس طرح جواب دینا ہے اور پھر ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ موجودہ حکومت کی کشمیر اور خارجہ پالیسی کامیاب جا رہی ہے اگر حکومت اپنی اس بے ڈھنگی،بے تکی اور نیم مردہ پالیسی کو کامیابی سے تعبیر کرتی ہے تو پھر اس ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔

پچھلے تین چار دن سے اس ،،پیر،، کی سفارت کاری ہر پاکستانی کے لئے،،، پیڑ،،، بن گئی ہے جس نے غیرت،حمیّت،انا اور خودداری کے سارے لفظوں کو بھی بے توقیر کر کے رکھ دیا ہے جنگ کے ماحول میں یہ کہنا کہ حکومت کے پاس جنگ کا کوئی آپشن نہیں ہے بزدلی اور بے غیرتی ہے ستر سال سے پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں سے زیادتی ہے آزادی کشمیر کی خاطر بہنے والے خون سے غداری ہے ان مظلوم کشمیریوں سے نا انصافی ہے جو سات دہائیوں سے ظلم و جبر کے سائیوں سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جس دہشت گرد کلبھوشن نے میرے بچوں کا خون بہایا میری،،دھرتی ماں،، کے کلیجے کو تڑپایا جس نے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں سے میرے دیس کا کونہ کونہ بے گناہوں کے خون سے سرخ کر دیا عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد جس کی گردن لمبی ہونی چاہیے تھی آج انصافی وزیرخارجہ نے ہندوستان کو اس تک قونصلر رسائی دے کر نہ صرف پاکستانیوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا ہے بلکہ اپنی بزدلی ،نالائقی اور نا اہلی کا بھی اعتراف کیا ہے ۔

جناب پیر صاحب حوصلے،دلیری اور مضبوط اعصاب کے ساتھ پاکستانیوں اور کشمیریوں کا موقف دنیا کے سامنے رکھیں ،،، ہندوستان سے جنگ نہ کرنے آپشن یہ آپ کا بیانہ تو سکتا ہے مگر پاکستانی قوم کا یہ نظریہ نہیں ہو سکتا،،،
جب امن کا دشمن امن کے معنی و مفہوم سے ہی نا آشنا ہے اور مذاکرات سے انکاری ہے تو پھر پیر صاحب آپ کیوں امن ،امن کی رٹ  لگائے ہوئے ہیں اور مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔


پاکستان کا ہر باسی امن کا متمنی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی خوداری، انا ،غیرت اور حمیّت کو گروی رکھ دیں۔
ہر گز ہمیں قبول نہیں یہ ضد دشمن کی
کہ ہم خودداریوں کو بیچ کر آرزؤے امن کریں
یہ سر ہمیں عزیز ہیں عزت کی حد تلک
عزت نہیں تو سر کا ہم گردنوں پہ کیا کریں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :