کرائسٹ چرچ پر حملہ،مسلم امہ اور صلیبی جنگیں

جمعہ 29 مارچ 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

اگر ہم موجودہ عالمی حالات کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیرن آرمسٹرانگ کی مشہور کتاب (The Crusades) کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ لڑکپن میں جب وڈیو گیمز کے جنون نے عروج پکڑا تو امریکہ کے سافٹ وئیر ماہرین کی وڈیو گیم StrongHold ہاتھ لگ گئی، یہ گیم کیا تھی ،بس ایک نشہ سا تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب نہ مطالعہ اتنا تھا اور نہ ہی کوئی بات زیادہ سمجھ آیا کرتی تھی۔

گیم میں آپ کو پرانے زمانے کے قلعے حوالے کردیے جاتے ، آپ کو ہر مشن میں اپنے محل کو مضبوط سے مضبوط کرنے کے ساتھ بہترین فوج تیار کرنا ہوتی تھی۔ آپ کسانوں ،لکڑہاروں کے گھروں سے گیم کا آغاز کرتے، بادشاہ کے محل کے اردگرد جنگی سازوسامان تیار کرنے کی آرمر عمارات قائم کرتے اور وہیں پھر آپ بادشاہ کے دربار کے پاس بیٹھی عوام کو جنگ میں شامل کرتے،اس گیم میں آپ کو لوگوں کو کئی بار سمجھانا پڑتا کہ یہ The Crusades ہے، ہمیں بہت خطرہ ہے، ہمیں خود کو بچانا ہے، جب ایک بہترین فوج تیار ہوجاتی تو آپ یہ لشکر لے کر ہرے جھنڈوں والے کسی قلعے کی طرف نکل پڑتے اور پھر بہترین جنگ ہوتی ،جس میں اگر آپ اچھی ذہانت دکھاتے تو محل کے کسی چور راستے سے فوج داخل کرکے بہترین جنگ لڑتے چلے جاتے،اگر آپ فوج بنانے میں تھوڑی دیر لگادیتے تو پھر ہرے جھنڈے والے آپ کے محل پر آپ سے پہلے پہنچ جاتے ،اور یوں دیر سے جنگ آپ کو جارحانہ ہونے کی بجائے دفاع کے لیے لڑنا پڑتی اور وہ مشن آپ اکثر ہار جاتے۔

(جاری ہے)

کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب کے مطالعہ کے دوران مجھے ہر صفحے پر ایسا لگا کہ میں وہ گیم کھیل رہا ہوں۔ تاریخ میں سب سے پہلے یہ جنگ اس کتاب میں 1096ء میں دکھائی گئی کہ جب مسلمانوں سے بیت المقدس چھیننے کی کوشش کی گئی ،یہ جنگ تین سال جاری رہی،مگر تاریخ اس سے زیادہ پرانی ہے ، ظہور ِ اسلام سے پہلے یہودی اور عیسائی بہت با اثر تھے، جب ان کی طاقت ٹوٹتی دکھائی دینے لگی ، تو انہوں نے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا ، مگر اونٹ چرانے والے جاہل عرب اس قدر طاقت ور نکلے کہ انہوں نے بہت جلد عیسائی اکثریت ممالک مصر، شام، عراق ، ایران(آتش پرست)،اسپین،وسط ایشیاء،آرمینیاء،آذر بائی جان، کریٹ اور قبرص پر قبضہ کرلیا۔

آنے والے سلسلے 1096ء کی جنگ تک جانکلتے ہیں، اس کے لیے پوپ اربن دوم نے عیسائیوں کو اکسایا اور بیت المقدس ،فلسطین اور ملحقہ علاقے فتح کرلیے گئے۔دوسری صلیبی جنگ 1147ء اور تیسری جنگ1189ء میں لڑی گئی اور اس کا مقصد مشہور مسلمان جرنل صلاح الدین ایوبی کو بیت المقدس کے حملے سے روکنا تھا،دوسری طرف انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس جنگ میں شریک تھا،اس جنگ میں ایوبی کو فتح حاصل ہوئی ،مگر یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں۔

یہ ایک سے دو سو سال تک چلنے والا صلیبی جنگوں کا پہلا عشرہ تھا۔ دوسرا عشرہ تیروہیں صدی کے اواخر اور چودہویں صدی کے شروع میں ظہور پذیر ہوا، اس عشرے میں انگریز ،ہسپانوی ،جرمن حکمرانوں نے مراکش،تیونس، الجیریا، مصر،لیبیا،سوڈان،چاڈ،یوگنڈا،سینی گال،شام،فلسطین،انڈیا،گمبیا،مالی،گنی وغیرہ پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔

یہ سلسلہ اس کے بعد کسی مہلک بیماری کی طرح تھما نہیں، مگر اس کی شدت میں کمی آگئی۔ برصغیر پاک و ہند میں ایسی شدت جنگ آزادی کے بعد دیکھنے کو ملی ، مگر پھر اڈولف ہٹلر کے آنے کے بعد ، یہودیوں کی طرف اڈولف کی بدترین قاتلانہ پالیسیوں اور جرمنی کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنانے کے جنون نے صلیبی جنگ کا جنون بالکل ختم کردیا۔اڈولف ہٹلر کے بعد عالمی طاقتوں میں کولڈ ورلڈ وار چھڑ گئی اور یوں صلیبی جنگیں اسی جنگ میں ضم ہوکر رہ گئیں۔

1948ء میں صہیونی ریاست کے قیام اور اس کو تقویت بخشتی ریاستوں نے آنے والے سالوں میں پہلے عشرے کی یاد تازہ کردی ، مورخ اس عشرے کو Reborn Christians سے منسوب کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ جارج بش سینئر و جونئیر، ٹونی بلئیر ،سرکوزی اور دیگر حکمرانوں کا گٹھ جوڑ تھا۔ پھر افغانستان میں سرد جنگ کے سلسلے آنکلتے ہیں۔ امریکہ جیت جاتا ہے اور ہم امریکہ کے اتحادی۔

اسامہ بن لادن 1996-97ء میں امریکہ کے خلاف ہوجاتا ہے اور 9/11ء کے بعد امریکہ افغانستان پر حملہ کر دیتا ہے اور ہم پھر امریکہ کے اتحادی۔ بھارت کا کشمیر پر تسلط ، اور کشمیریوں کا جہاد دہشت گردی کی جنگ میں ضم ہوجاتا ہے، القائدہ اور پھر داعش جیسی تنظیموں کا جنم مسلم دہشت گردی کے لیبل کے ساتھ ہوتا ہے اور اسی سب کی آڑ میں Crusades بھی جاری رہتا ہے۔

آئی ٹی کے دور میں StrongHold جیسی کئی گیمز آپ کے سیل فونز کا حصہ بنتی ہیں، سوشل میڈیا پر بھی صلیبی جنگوں کے لیے کام کرنے والے اپنا کام جاری رکھتا ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت رگوں میں داخل کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ادھر مسلمان اس جنگ سے غافل آپس میں فرقوں کی جنگ جاری رکھتے ہیں اور انہی صلیبی طاقتوں کے ہاتھ آپس میں شیہ سنی اور نجانے کیا کیا فساد برپا کرلیتے ہیں۔

یہ سب اس قدر بھیانک ہے کہ ایران ،سعودی عرب فساد کی بنیاد ہی فرقہ واریت ہے۔ شام کی تباہی اس خلیجی سرد جنگ کیBattle Field کیا کہانی ہے، جہاں سپر پاورز کی جنگ بھی ہے، خلیجی فرقہ واریت کی جنگ بھی لڑی جارہی ہے اور صلیبی جنگ بھی کسی روپ میں موجود ہے۔اسی تناظر میں Brenton Tarrant جیسی ذہنیت کے لوگوں کا جنم ہوتا ہے۔ White Supermacy یعنی کے سفید فام نسل خاص کر امریکی سفید فام نسل کو پوری دنیا پر فوقیت حاصل ہے۔

یہ موجودہ امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نظریہ بھی ہے جسے Alt-right کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ Brenton Tarrant نیوزی لینڈ جیسے محفوظ ترین ملک میں بھی اس سوچ کا پرچار کرتا ہے۔ 15 مارچ 2009ء کو وہ ایک وڈیو گیم کی طرز پر سر پر سوشل میڈیا کے لائیو آپشن استعمال کرتا جمعہ کی نماز کے وقت کرائسٹ چرچ میں النور مسجد اور لِن وڈ مسجد پر ایک آٹو میٹک کلاشکوف سے حملہ کردیتا ہے، اور پچاس نمازیوں کو شہید کردیتا ہے۔

بنیادی طور پر تو وہ Alt-right نظریے کی نمائندگی کرتا ہے، مگر وڈیو گیم طرز پر حملہ،سوشل میڈیا پر ہیرو بننے کا انداز اور پر امن ترین ملک کے سب سے محفوط شہر میں مسلمانوں سے اس قدر نفرت کا پرچار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صلیبی جنگوں کی بقا ، مسلمانوں کے خلاف جو زہر رگوں میں اتار رہی ہے،اس کا اثر کس قدر گہرا ہے۔ اس سارے حملے میں نعیم راشد جیسے پاکستانیوں کی بہادری اور اس کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم Jacinda Arden کا اس نفرت کا کم کرنے کے لیے ادا کیا جانے والا کردار قابلِ تحسین ہے۔

ایک جمعہ جہاں پورا نیوزی لینڈ ان گولیوں سے تڑ تڑ کر اٹھا،آج وہاں جمعہ کے خطبہ پوری قوم نے سنا اور اس کو لائیو تمام چینلز پر ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ یہ سب اعتدال پسند افراد کو Brenton جیسے رویوں سے باز تو رکھ سکتا ہے، مگر صلیبی جنگوں کی آڑ میں جو کچھ صدیوں سے کیا جارہا ہے،اس نفرت کو کم کرکے دنیا کو پر امن نہیں بنا سکتا ۔اس کے لیے تمام مسلم امہ کواکٹھا ہونا ہوگا، Crusades آج بھی جاری ہے، ہر تیسرے گھر میں کوئی نہ کوئی بچہ اپنے فون پر کسی مسجد یا قلعہ پر حملہ آور ہے اور اللہ اکبر کی صداؤں میں دشمن مارے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میںCrusades مزید کتنے Brenton Tarrant پیدا کرے گا، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :