ایرانی سیاست کا نیا موڑ

ہفتہ 25 جنوری 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

تین جولائی 1988ء ایران کی پرواز نمبر 655 نے تہران سے دبئی کے لیے اڑان بھری۔یہ عراق ایران جنگ کے اختتام کا عرصہ تھا۔امریکی بحری بیڑے آبنائے ہرمز میں گشت کیا کرتے تھے اور اس کا مقصد جہاں عراق کی مدد تھا ،وہیں ایران پر اس راستے کا اختیار لینا بھی تھا۔ یہ بیڑے آبنائے ہرمز میں ایک قسم کی ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی انٹری تھی،جو پورے مشرقی وسطی میں تباہی مچانے کا پیش خیمہ تھی۔

امریکی Vincennes نامی جنگی بحری جہاز کے عملے کے ریڈار نے مسافر طیارے کو ایف 14 ٹام کیٹ تھنڈر لڑاکا طیارہ سمجھ لیا۔ Vincennes نے اس طیارے کو آبنائے ہرمز سے دور رہنے اور اپنی یہاں آنے کی اصل وجہ بتانے کے سگنل بھیجنے شروع کردیے۔یہ ایک مسافر طیارہ تھا،جس میں ایسے سگنل موصول کرنے اور ان کا جواب دینے کا کوئی نظام موجود ہی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

ائیر بس 300 پر اس وقت کا جدید ترین میزائیلSM-2MR داغ دیا گیا۔

طیارہ ہوا میں آگ کا گولہ بن گیا اور تباہ ہوکر سمندر میں پھیل گیا۔ اس کے بعد Vincennes میں خوشی کے گیت گائے جانے لگے۔ ابھی یہ سب جاری تھا کہ Vincennes کے ریڈار پر ایک میسج موصول ہوا کہ ایران کا ایک مسافر طیارہ آبنائے ہرمز پر گم ہوگیا۔ پھر ایک اعلان ہوا کہ ایک ایرانی مسافر طیارے کے آبنائے ہرمز میں تباہ ہونے کی اطلاع دی جارہی ہے، فوری طور پر جگہ پر پہنچ کر امدادی کاروائیاں کی جائیں اور اگر کو ئی زندہ بچ گیا ہے تو اس کی مدد کی جائے۔

یہ ایک جنگی سانحہ تھا۔امریکہ کے اس وقت کے صدر رونلڈ ریگن نے ایک افسوس نامہ لکھا اور یہ بات وہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر یہ کہVincennes کے پورے عملے کو واپسی پر جنگی خدمات پر بڑے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت میں چلا گیا۔ امریکہ کئی سال اس بات سے انکار کرتا رہا کہ یہ طیارہ گرایا گیا تھا۔با لآخر 1996ء میں امریکہ نے اس عدالت کے سامنے ثبوتوں کی بنا پر اپنی غلطی تسلیم کی ،مگر معافی پھر بھی نہیں مانگی گئی۔

مرنے والوں کو چند ڈالر ادا کیے گئے اور یہ بات دھواں ہوگئی۔اس حادثے میں 290 مسافر اور عملے کے ارکان مارے گئے۔یہ طیارہ جب گرایا گیا توVincennes کے اندر کے تمام مناظر انٹرنیٹ پر موجود ہیں، یہ خوش تھے اور طیارہ گرتے ہی ناچتے دکھائی دیے،مگر اعلان کے ساتھ ہی ان کو شرمندہ دکھایا گیا ۔ ایران امریکہ کے مابین تعلقات محمد رضا پہلوی کے جانے اور ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد سے ابتک بدستور جنگی ہی رہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ امریکہ کا خطے میں اسرائیل تسلط قائم کرنے کا خواب ہے،جبکہ ایران خطے میں پاسدارانِ انقلاب کے ذریعے یہاں مذہبی بنیادوں پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے اور اس میں ایران کا سب سے بڑا مخالف سعودی عرب ہے ،جس کی مخالفت کی وجہ بھی فرقہ وایت ہی ہے اور امریکہ اور سعودی عرب کے مابین بہترین تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات گو خطے میں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ہیں، مگر پھر بھی اس طاقت کے جنون نے پورے مشرقی وسطی کو راکھ میں تبدیل کردیا ہے۔

یہ جنگ سورش زدہ ممالک عراق،لبنان،شام کی سرزمین پر لڑی جارہی ہے اور مسلک کی اس جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اور امریکہ کو ہورہا ہے۔ امریکہ ایران پر ایٹم بم بنانے کا الزام لگا تا ہے اور یہی الزام لگا کر وہ عراق میں داخل ہوا تھا، مگر امریکہ کسی طور ایران سے جنگ نہیں چاہتا اور وہ یہ جنگ تب تک نہیں چاہتا،جب تک اس کی سی آئی اے ایران کے اندر عراق جیسے حالات پیدا نہ کرلے،وہاں مقامی سورش برپا نہ ہو اور ایران اندر سے مکمل طور پر تباہ نہ ہوجائے۔

جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد یہ سب امریکہ کے لیے مشکل ہوگیا تھا،کیونکہ اس نے ایران کو اندر سے مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ،پورے مشرقی وسطی میں پھیلے پاسدارانِ انقلاب کے اتحادی گروہوں کو امریکہ کے خلاف کردیا تھا۔اس سے امریکہ کو بہت بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا اور امریکہ کسی طور پورے مشرقی وسطی میں یہ جنگ اس قدر پھیلا کر لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھا،ایسا نہ اسرائیل چاہتا تھا۔

کیونکہ اگر یہ جنگ گوریلا جنگ کی شکل اختیار کرلیتا،تو بے شک ایران تباہ بھی ہوجاتا،تب بھی اسرائیل کو براہ راست پاسدرانِ انقلاب سے شدید خطرات تھے اور یوں یہ سب سنبھالنا ناممکن ہوجاتا۔ دوسری طرف ایران کی دھمکیاں، کسی طور صدام حسین جیسی نہیں تھیں،گو ایران معاشی طور پر بہت کمزور تھا، مگر ایران میں دفاع کی اس قدر طاقت تھی کہ وہ امریکہ کو کم از کم جنگ میں ٹف ٹائم دے سکتا تھا اور یہ بھی عین ممکن تھا کہ اس جنگ میں پاسدارانِ انقلاب پورے مشرقی وسطی میں پھیلے امریکی فوجی اڈوں کو تباہ کردیتی ا ور امریکی عوام اب کسی طور اپنے فوجیوں کو مزید مرتا دیکھتے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔

ایجنسیاں اس پر بھی قیاس آرائیاں کرتی نظر آتی ہیں کہ ایران کب کا ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے اور اس کی مکمل تفصیل پینٹاگون میں موجود ہے اور اگر امریکہ نے کوئی مہم جوئی کی تو ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ تیسری عالمی جنگ ہو اور یہ ایٹمی جنگ میں بدل جائے۔جنرل سلیمانی پر حملے کے بدلے کے طور پر ایران نے دو امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ تو بنایا ،مگر ان میں کسی طور کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا اور بعد میں یہ دعوی بھی سامنے آیا کہ یہ سب صرف ایک اشارے کے طور پر کیا گیا تھا کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو ہم بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہیں۔

ادھر امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ بھی ایک پریس کانفرنس کرکے جنگ سے پیچھے ہوگئے اور یوں یہ معاملہ کسی طور دب گیا۔ یہ ایران کی سیاست میں نیا موڑ آتا ہے ۔یوکرائن کی فلائٹ نمبر 752 تہران سے یوکرائن کے لیے 8 جنوری 2020ء کو پرواز بھرتی ہے۔ یہ پرواز امریکہ ایران تنازعہ کے دوران تہران ائیر پورٹ سے اڑنے والی وہ دوسری پرواز ہوتی ہے ،جو ایک قومی سانحہ کی شکل اختیار کرلتی ہے۔

اب کی بار امریکہ کی کی گئی غلطی ایران دہراتا ہے اور طیارہ مار گرایا جاتا ہے۔ اس پر 176 مسافر سوار تھے جن میں اکثریت کینیڈا اور ایران کے شہریوں کی تھی۔ اس کے بعد ایران مسلسل انکار کی روش اختیار کرتا ہے، مگر کینیڈا کی طرف سے ہائی لیول انکوائری کے مطالبے کے ایران پر دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔بالآخر انٹرنیٹ پر وہ فوٹیج بھی سامنے آتی ہے جس میں اس طیارے کو زمین سے میزائیل مارا جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔

ایک آگ کا گولا زمین سے جہاز کی طرف بڑھتا ہے اور ہوا میں ہی رات کے اندھیرے میں دھماکہ ہوتا ہے۔سید علی حسینی خامنہ ای اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور اس کو جنگی حالات میں ناقابل ِ معافی جرم قراد دیتے ہیں۔ایسے میں ایران کی ائیر فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ اس کا ملبہ سرکار پر ڈالتے ہیں کہ جنگی حالات میں ہم نے ایران کو نو فلائی زون قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا،جو پورا نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے سسٹم کے پاس صرف دس سیکنڈ تھے ،ہم نے اس کو امریکہ میزائیل سمجھا جو حساس زون میں داخل ہورہا تھااور ہم نے اسے میزائیل سے مار گرایا۔

اس اعتراف کے بعد ایران میں مظاہرے زور پکڑتے ہیں،اور وہ سب لوگ جو جنرل سلیمانی کے نمازِ جنازہ میں کئی کلومیٹر تک امریکہ کے خلاف پھیلے تھے،ایران حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اسے عوامی طور پر ایک فوجی اور انتظامی نا اہلی قرار دیا جاتا اور ایرانی تاریخ میں پہلی بار قیادت کے خلاف بغاوت بلند ہوتی ہے۔ایسے میں ایران کی واحد خاتون اولمپک سٹار کیمیا علی زادی ،جس نے ایران کی طرف سے 2016ء میں سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا، انسٹا گرام پر ملک چھوڑنے کا اعلان کرتی ہے اور ایران کی سرکاری اور مذہبی قیادت کو منافق قرار دیتی ہے۔

وہ ایران جو چند دن پہلے انتہائی متحد تھا، بشار الاسد کا شام اور صدام کا عراق دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس واقعے نے ایران کے اندر کئی سالوں سے دبی بغاوت کو بالآخر جنم دے دیا۔ جنرل سلیمان کی موت کے بعد ان کے جنازے پر 56 لوگوں کا بھگدڑ میں مارا جانا اور پھر یہ سانحہ۔اس جنگی تنازعہ میں سب سے زیادہ نقصان ایران کا ہوا اور اس جہاز کے گرنے کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ آنے والے وقتوں میں یہ سانحہ اگر سی آئی اے کی پلاننگ کو اپنا کام کرنا کا موقع دے گیا تو تہران کا آزادی سکوائر،مصرکا التحریر سکوائر بن جائے گا۔

ایران میں کئی سال سے لگی مذہبی پابندیاں ،انٹرنیٹ کی بندش اور سخت سزائیں ،پہلے ہی ایک آزاد دنیا میں وہاں کی عوام میں بغاوت بھر چکی ہیں ۔اوپر سے خامنی دورِ حکومت بھی کسی طور ایرانِ میں1979ء کے اسلامی انقلاب سے ابتک ان پر مسلط ہے۔یہ ایک قسم کی آمریت ہے،جو کسی طور مذہب کے لبادے میں ہے اور ایسے طویل دور حکومت، ملکوں کو عراق بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔

امریکا کا صدارتی نظام ،کسی طور جمہوری ہے،جو لوگوں کو طاقت دیتا ہے۔ مشرقی وسطی کے جتنے ملک تباہ ہوئے،وہ سب آمریت کے شکنجے میں تھے اور ایسا ہی ایران میں بھی ہے۔ اگر یہ سلسلے چلتے رہے ،تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح آخری مغل کے دربار کے محل کے دروازے اندر سے کھولے جائیں گے اور فوج محل کے اندر ہوگی۔ امریکہ نے براہ راست جنگ نہیں کی، مگر وہ عراق سٹائل وار پر آگیا ہے۔ اس جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاسدارانِ انقلاب اور قدس بریگیڈ ہوگی، مگر اگر ان ہی پھوٹ پڑ گئی تو یہ سب آخر کب تک؟ایران کی سیاست نئے موڑ پر ہے اور اب ایران اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :