پاک، ترک اورآذربائیجان خلائی معاہدہ

جمعرات 18 فروری 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ان دنوں پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت انتہائی تیز ہے اورہرطرف سینٹ انتخابات کیلئے گہماگہمی ہے ،اس پر سونے پہ سہاگہ کے مصداق جب سا بق وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے دوسابق وزرائے اعظم کے ہمراہ بطورامیدواراپنے کاغذات جمع کرائے توایک سیاسی بھونچال ساآگیا،انہی سیاسی خبروں کی وجہ سے کئی اہم خبریں پردہ سکرین سے غائب ہوگئی ہیں انہیں خبروں میں سے ایک خبرکی آذربائیجان کے سفیرعلی علی زادہ نے رواں ہفتے ٹویٹ کی جس میں انہوں نے بتایاکہ ترکی پاکستان اور آذربائیجان کے ساتھ خلائی ٹیکنالوجی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرے گااورترکی سے اے پی اے کے بیورو کی خبروں کے مطابق ترک وزیر برائے صنعت و ٹیکنالوجی مصطفی ورانک نے اناطولیہ سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ترکی نے خلائی سرگرمیوں سے متعلق تین ممالک کے ساتھ معاہدے کیے ہیں اورخلائی ٹیکنالوجی کے آذربائیجان اور پاکستان کے ساتھ ہمارے معاہدے تیار ہیں ، ہم دستخط کرنے کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اس سے قبل 9فروری کوترکی کے صدررجب طیب اردگان نے اپنے 10 سالہ خلائی پروگرام کااعلان کیاہے جس میں ترکی کے خلابازوں کوخلاء میں بھیجنااورخلائی سٹیشن کاقیام بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف ترکی کے وزیر صنعت و ٹیکنالوجی مصطفی وارانک نے کہا ہے کہ ترکی کو مضبوط عالمی اقتصادی طاقتوں میں شامل کرنے کے لئے ہم خلائی پروگرام شروع کرنے پر مجبور ہیں۔وارانک نے، ٹرکش ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن TRT پر پیلن چفت کی میزبانی میں نشر ہونے والے پروگرام 'ایجنڈے سے ہٹ کر' میں بحیثیت مہمان شرکت کی۔پروگرام میں ترکی کے خلائی پروگرام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ "اگر ہم ترکی کو دنیا کی طاقتور ترین اقتصادی طاقتوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں، ایڈڈ ویلیو کی حامل پیداوار کے ساتھ ترقی دینا چاہتے ہیں اور مستقبل میں اپنے بچوں کے لئے ایک مکمل خودمختار ملک چھوڑنا چاہتے ہیں تو خلا کے شعبے میں کام کرنا ہماری مجبوری ہے"۔

وارانک نے کہا ہے کہ یہ کوئی انتخاب نہیں مجبوری ہے۔2023 میں ہم چاند کے ماحول میں داخل ہوں گے اور 2028 میں چاند کی سطح پر سوفٹ لینڈنگ کرکے سائنسی تحقیقات کریں گے۔خلائی شعبے میں ترکی کے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر صنعت و ٹیکنالوجی مصطفی وارانک نے کہا ہے کہ ترکی میں پیدا کی جانے والی 'بوسٹ موٹر' اور 'اسٹار کیمرہ' ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ جس پر دنیا میں چند ایک ممالک ہی کام کر رہے ہیں۔


پاکستان نے حالیہ برسوں میں ترکی اور آذربائیجان دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھایا ہے، اسی دوران 2017 میں ترکی ، آذربائیجان اور پاکستان کے مابین سہ فریقی تعاون کامعاہدہ عمل میںآ یا۔2003 میں پاکستان اور ترکی نے ایک اعلی سطحی فوجی تعاون کا میکانزم قائم کیا۔ مئی 2019 میں اپنے تعلقات میں بالکل نیا باب شامل کیا ترکی اورپاکستان نے اپنے فوجی اور اسٹریٹجک تعلقات کو اپ گریڈ کیا۔

اور جنوری 2019 میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے انقرہ کے دورے کے بعد سے ، دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات مستحکم ہوتے جارہے ہیں اور وہ مضبوطی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔جب امریکہ نے ایف 16 طیاروں کی اپ گریڈیشن سے انکارکردیاتو تب پاکستان نے ترکی سے مدد کی درخواست کی جس پرترکی نے پا ک فضائیہ کے لئے 41 ایف 16 طیاروں کے ایک دستے کو اپ گریڈ کرنے میں مدد کی اور چین کے بعد پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کرنے ولاملک بن گیا۔

اب تک پاکستان اورترکی کے مابین سب سے اہم دفاعی معاہدہ کیاگیاہے جو پاک بحریہ کے لئے چار MILGEM Ada-Class Corvettes فراہم کریگا اوراسی طرح پاکستان کو 30 ترکش ٹی 129 ایٹاک ہیلی کاپٹربھی دیگا جبکہ 2017میں ترکی نے پاکستان سے 52 MFI-17 سپر مشاق تربیتی طیارے خریدے تھے۔
جب 2018 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف)کے ذریعے پاکستان کو "گرے لسٹ" میں رکھا جارہا تھا تواس وقت ترکی ہی واحدملک تھاجوپاکستان کاحامی تھا اورترکی ہی ایک ایساہمارامعتبر دوست ملک ہے جوپاکستان کی بین الاقوامی دفاعی نمائش اور سیمینار(آئی ڈی ای اے ایس)میں باقاعدگی سے شامل ہوتاآرہاہے۔

دونوں ممالک کی کوششوں سے برآمدات اوردرآمدات کئی ملین ڈالرتک پہنچ چکی ہیں۔ ترکی ہمیشہ ہر فورم پر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ یونان اور قبرص کے ساتھ تنا زعہ پر پاکستان نے بھی ہمیشہ ترکی کے موقف کی حمایت کی ہے،پاکستان اورترکی کے مابین تعلقات یہیں پرمحدودنہیں ہیں بلکہ اپنی ا فواج کو مل کر کسی بھی غیر متوقع چیلنج کا مقابلہ کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔

رواں ماہ منگلامیں جاری کمانڈوزاتاترک الیون مشقیں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے
دسمبر1993 میں آذربائیجان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا، دو نوں ممالک کے درمیان دوطرفہ اسٹریٹجک تعاون نے معاشی ، ثقافتی ، سیاسی اور خاص طور پر دفاعی شعبوں میں تعاون فروغ پایا۔ پاکستان اورآذربائیجان نے مئی 2003 میں ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔


پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جو نگورنوکاراباخ تنازعہ کی وجہ سے آرمینیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور آذربائیجان کے موقف کی مکمل حمایت کرتاہے اوراسی طرح آذربائیجان بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر مبنی مسئلہ کشمیر کے حل کی مکمل حمایت کرتا ہے۔اکتوبر 2018 میں پاکستانی مسلح افواج کے وفد نے دوطرفہ فوجی تعاون پر تبادلہ خیال کے لئے آذربائیجان کا دورہ کیا۔

دونوں ممالک کے مابین یہ بڑھتا ہوا دفاعی تعاون 31 مارچ2015 کو دستخط کیئے جانے والے دو طرفہ فوجی تعاون کے ایک پروٹوکول پر مبنی ہے ، جس کے نتیجے میں 24 نومبر 2017 کو "بک آف آنر" پر دستخط ہوئے۔
آذربائیجان ،پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات مزیدمضبوط کرناچاہتاہے۔ پاکستان آذربائیجان کوطیارہ شکن میزائل انزا II ، اینٹی ٹینک میزائل ، مشاق طیارے ، اور متعلقہ سامان فراہم کرسکتاہے جبکہ آذربائیجان پاکستان سے جے ایف 17 تھنڈرفائٹرطیارے خریدنے کا خواہشمندہے۔

مارچ 2019 میں آذربائیجان کے وزیر دفاع کرنل جنرل ذاکر حسنوف کے دورہ پاکستان کے دوران فریقین نے سلامتی کے شعبے میں تعاون کے فروغ کے ساتھ ساتھ فوجی ، عسکری ، تکنیکی ،تعلیمی اور دیگر شعبوں کے علاوہ باہمی دفاعی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
گذشتہ سال نگورنوکاراباخ تنازعہ پر آرمیناسے آذربائیجان کی جنگ پرترکی کیساتھ ساتھ پاکستان نے بھی کھل کرآذربائیجان کی حمائت کی تھی،اس جنگ کے دوران آرمینیانے ایک آڈیوٹیپ چلائی جس میں انہوں نے دعویٰ کیاکہ یہ پاکستانی فوجیوں کی آوازہے جوآپس میں بات چیت کررہے ہیں جو آذری فوج کیساتھ شامل ہوکرآرمینائی فوج سے لڑرہے ہیں ،پاکستان نے آرمیناکے اس دعوے کومستردکردیاتھا،
 اس جنگ کے دوران آذری عوام نے پاکستان کی حمائت پرخوشی کااظہارکیااورہرطرف پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔

گذشتہ ماہ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان آذربائیجان کے دورے پرگئے تھے ، دورے کے دوران کمانڈر آذربائیجان ایئر فورس لیفٹیننٹ جنرل رمیز طاہروف سے ملاقات کی،اس ملاقات میں باہمی دلچسپی اور دوطرفہ تعاون کے امور زیربحث آئے، ایئر چیف نے آذربائیجان فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کی اور اپنے ہم منصب کو پی اے ایف کی مکمل مدد کی یقین دہانی کرائی، کمانڈر آذربائیجان ایئر فورس نے پی اے ایف کے تربیتی نظام کے اعلیٰ معیار کی تعریف کی اور آذری فضائیہ کے اہلکاروں کی تربیت میں اس کی حمایت کا اعتراف کیا،خاص طور پر JF-17 پروگرام کی تعریف کی اوردلچسپی کااظہارکیا۔

بعد میں ایئر چیف نے آذربائیجان کے وزیر دفاع کرنل جنرل ذاکر حسنوف سے بھی ملاقات کی، باہمی تعاون کو مزید تقویت دینے کے لئے باہمی مفادات سے متعلق امور پر اتفاق رائے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
اب پاکستان ،ترکی اورآذربائیجان کے درمیان سہ فریقی تعاون کاتھوڑاساجائزہ لیتے ہیں،پاکستان ،ترکی اورآذربائیجان کے درمیان باقاعدہ سہ فریقی تعاون کاآغاز باضابطہ طور پرنومبر 2017 میں اس وقت شروع کیا گیا جب باکو میں آذربائیجان کے وزیر خارجہ ایلمار ممادیاروف نے ترکی اور پاکستان کے اپنے ہم منصب میلوت کیوسوگلو اور محمد آصف سے ملاقات کی۔

مماد یاروف کے مطابق فریقین نے تجارتی کاروبار میں اضافہ ، بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور دفاعی شعبے میں کثیر شراکت داری پر اتفاق کیا۔ تینوں ممالک نے ماضی میں جو ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے تھے انہیں نتیجہ خیزبنانے پراتفاق کیا،اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیاجس میں باہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد پر تینوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعاون پر اظہار اطمینان کیا اور آزادی ، خودمختاری ، علاقائی سالمیت اور باہمی احترام اور مضبوط حمایت جاری رکھنے پراتفاق کیاگیاتھا،اعلامیے میں تینوں ممالک کے مابین توانائی اور تجارت نیز ٹرانسپورٹ کے انفراسٹرکچر کی ترقی ، ریل ،روڈاورفضائی رابطے کو بڑھانے کے لئے سہ فریقی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔

پاکستان ، ترکی اور آذربائیجان حال ہی میں اسٹریٹجک شراکت داری کے ایک نئے دورمیں داخل ہوئے ہیں، ترکی کے وزیر خارجہ میلوت کیوسوگلو اور آذربائیجان کے وزیر خارجہ جیہون بائراموف کے پاکستان کے دورے کے ساتھ تینوں دوست ممالک نے سیاسی ، اسٹریٹجک ، معاشی ، سیکیورٹی ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں باہمی تعاون کو بہتر بنانے کا اعلان کیا۔

خلائی ٹیکنالوجی میں تعاون کامعاہدہ پاکستان ،ترکی اورآذربائیجان کے درمیان مستقبل کے تعلقات کی بھرپورنشاندہی کررہاہے۔
ترکی ،آذربائیجان خلائی ٹیکنالوجی کے معاہدے سے قبل پاکستان نے اگست 2011 میں اپنا پہلا مواصلاتی سیٹیلائٹ PAKSAT-1R لانچ کیا تھا جس نے ملک کے خلائی پروگرام میں ایک سمت متعین کی۔2018 میں سپارکو اور چین کی گریٹ وال انڈسٹریل کوآپریشن کے ساتھ خلائی تعاون کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد پاکستان نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ (PRSS-1) اور ٹیکنالوجی ایوالیوشن سیٹلائٹ (PakTES-1A)خلاء میں بھیجا۔

2014ء میں پاکستان دنیاکاپہلاملک بن گیاجس نے سول اورملٹری مقاصدکیلئے استعمال ہونے والی امریکی ٹیکنالوجی جی پی ایس کوخیربادکہہ کرچین کے بنے جی پی ایس سسٹم جسےBeiDou کہتے ہیں پرمنتقل ہوگیاجس سے پاکستان کاسول اورڈیفنس سسٹم محفوظ ہوگیا۔پاکستان کاچین کے بعد اب ترکی کیساتھ ہونے والے خلائی پروگرام کے تعاون کے معاہدے سے پاکستان کے خلائی پروگرام 2047 کے اہداف حاصل کرنے اور ملک کی مستقبل کی سائنسی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :