بھارت ،لوجہاداوراسلاموفوبیا

منگل 10 اگست 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

حسب معمول حالات حاضرہ سے آگاہی کیلئے انٹرنیٹ پردنیاکی مختلف ویب سائٹس دیکھ رہا تھا تو اس دوران بھارت کے بھی کئی اردواخبارات بھی پڑھنے کوملے تقریباََ تمام اخبارات نے صفحہ اول پرایک خبرکونمایاں شائع کیاکہ"لوجہاد قانون،جمعیت علماء ہند کی درخواست پر گجرات ہائی کورٹ نے کئی سوالات اٹھادئیے اورریاستی حکومت کو نوٹس جاری کردیا،لو جہاد پر گجرات حکومت نے 15جولائی کو مذہبی آزادی(ترمیم شدہ)ایکٹ 2021 ء نافذ کیا تھا، اس قانون کے بعد بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور متعددمقدمات کااندراج ہوا۔

جمعیت علما ء ہند ودیگرکی طرف سے گجرات ہائی کورٹ میں اس قانو ن کے خلاف ایک ہفتہ قبل ایک درخواست دائرکی گئی تھی۔ جمعرات کو گجرات ہائی کورٹ نے ایڈوکیٹ جنرل کے ذریعے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔

(جاری ہے)

جمعیت علماء ہندکی طرف سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ محمد عیسیٰ حکیم اور سینئر وکیل مہر جوشی پیش ہوئے، جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس ویرن وشنو کی دو رکنی بنچ نے سماعت کی،دورکنی بنچ نے حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس طرح کے قانون بنانے کا مقصد پوچھا ہے اورریمارکس دیئے کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ شادی زبردستی ہو ئی ہے یا دھوکہ سے ہوئی ہے، تو مان لیا یہ جرم ہے، لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ شادی کی وجہ سے کسی شخص نے مذہب بدلا ہے، اس لئے جرم ہے، تو بتائیں وہ کیسے جرم ہے؟ یہ سوال درحقیقت عدالت نے قانون کی شق 3میں شادی کی وجہ سے تبدیلی مذہب والے جملے کی روشنی میں کیا۔

گجرات ہائی کورٹ نے ایک سوال یہ بھی پوچھااگر کوئی شادی کرتا ہے تو کیا آپ اسے جیل بھیجیں گے اور پھر اطمینان حاصل کریں گے کہ شادی زبردستی کی گئی تھی یا لالچ میں؟ اس پر حکومت کی طرف سے عدالت میں موجود شری لو کمار نے جواب دینے کے لیے وقت مانگا اور کہا کہ اس سے قبل قانون کا مکمل مطالعہ ضروری ہے۔ اس سے قبل صدرجمعیت علماء ہند مولانا محمود مدنی کی ہدایت پرجمعیت علماء گجرات کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں مئوقف اختیارکیا کہ اس قانون کے غلط استعمال ہونے کا سو فی صداندیشہ ہے، اس کے اندر لالچ دے کر تبدیلی مذہب کو جرم قرار دیا گیا ہے،اور لفظ لالچ کی تشریح اس طر ح کئی گئی ہے کہ ہر طرح کاقدم جر م مانا جائے گا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی کو مذہب قبول کرنے کے تناظر میں خدا کی رضامندی، ناراضی اور بہتر زندگی کی بات کہے تو بھی وہ مجرم قراردیا جائے گا اور اسے لالچ اور دھوکہ کے زمرے میں رکھا جائے گا۔

اس پرگجرات ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قانون مکمل طور سے مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور کسی بھی شخص کو مذہب بدلنے یا مذہب کی دعوت دینے سے صاف طور سے روکتا ہے، جو آئین ہند کی بنیادی دفعہ 25کے خلاف ہے۔نئی دہلی میں جمعیت علما ہند کے قومی صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ گجرات میں بنایا گیا قانون آئین کے بنیادی دفعات کے خلاف ہے، ملک چلانے والے کو قانون بنانے کا حق ہے، لیکن انسانی حقوق، شخصی آزادی اور آئین کے بنیادی دفعات کو کچلنے والا قانون ملک سے محبت کرنے والے کسی بھی طبقے کو منظور نہیں ہو سکتا ۔

واضح ہو کہ جمعیت علما گجرات کے ناظم پروفیسر نثار احمد انصاری اور مینارٹی کو آرڈی نیشن کے کنوینر مجاہد نفیس اس مقدمہ کی نگرانی کرر ہے ہیں، اس سے قبل بھی جمعیت علما گجرات نے لینڈ ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔ لو جہاد( Love Jihad)ایک اسلاموفوبک نظریہ اورمسلمانوں کے خلاف سازش ہے جسے ہندوتوا نظریے کے حامیوں نے ایجادکیاہے۔

ہندوانتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر انہیں مسلمان کرکے شادیاں کر رہے ہیں جس کا مقصد بھارت میں ہندؤوں کی آبادی کو ختم کرنا ہے۔بھارت میں لو جہاد کی اصطلاح 2009 میں اس وقت سامنے آئی جب ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست کرناٹک میں تیس ہزار خواتین کو مسلمان بنا لیا گیا ہے۔

سوا ارب کی آبادی کے حامل بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 200 ملین کے قریب ہے اور انتہا پسندہندؤوں کا الزام ہے کہ مسلمان اپنی اس خفیہ مہم کے ذریعے سیکولر بھارت کو اپنا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اینٹی لو جہاد فرنٹ نے ایک پمفلٹ شایع کیا تھا، جس کا متن کچھ ایسا تھا کہ ہندو بھائیوں سے اپیل۔جاگو ہندو جاگو! لوجہاد سے سودھان، مسلم لڑکے ہندو نام رکھ کر اور ٹیکا لگا کر ہندو لڑکیوں کو جال میں پھنساتے ہیں۔

ان کا دھرم پرورتن (بدل)کر کے شادی کرتے اور بچے پیداکرتے ہیں، ایوم(نیز)شریرک ومانسک سوشن(جسمانی و ذہنی استحصال)کر کے انھیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ بی جے پی نے بھی اپنی سیاسی قرارداد کی منظوری میں حیرت انگیز دعویٰ کیا تھا کہ ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ریپ کا شکار بنایا جا رہا ہے، ہندو انتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس ہندو جن جاگرن سمیتی وغیرہ کے مسلمانوں کے ساتھ بغض کا اندازہ لو جہاد نامی ایک کتاب سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جو انتہائی قابل اعتراض اور نفرت انگیز ہے، جس کے ذریعے بھارت ہی میں نہیں دنیا بھر میں مسلمانوں کیخلاف نفرت پیدا کرنے کی سازش کی گئی۔

بھارت میں انتہا پسندہندؤوں کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں مسلمان درجنوں ہندو لڑکیوں کو اغوا ء کرنے کے بعد انھیں محبت کے جال میں پھنسا رہے ہیں اور ان کا واحد مقصد انھیں ہندو سے مسلمان بنانا ہے۔ مسلمان مرد اور ہندو لڑکی کی شادی کو لوجہاد کا نام دیا جاتا ہے جبکہ ایک مسلم لڑکی اگرکسی ہندولڑکے سے شادی کرے تو اسے قومی یک جہتی قرار جاتا ہے۔

یہ منفی پروپیگنڈا کئی برسوں سے جاری ہے اس حوالے سے ایک اجتماعی شادی پر بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے کیرالہ میں بین المذاہب شادیوں کی تحقیقات کی تھی لیکن انہیں اس بات کاکوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکوں سے شادی کرنے اور مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ایجنسی کے اہلکاروں کے مطابق انہیں ان معاملات میں قانونی کارروائی کرنے کے لیے کسی بڑی سازش کے شواہد نہیں ملے۔

این آئی اے نے 89 شادیوں میں سے 11 کی جانچ پڑتال کی اس ایجنسی کوسپریم کورٹ نے لو جہاد کے معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم کیرالہ کی ایک 24 سالہ خاتون ہادیہ عرف اکھیلا کی ایک مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کے تناظر میں دیا گیا تھا۔لو جہاد کے منفی پروپیگنڈے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں ایک بڑے کاروباری گروپ نے اپنے سونے کی مصنوعات کا اشتہار نشر کرایا تو اس پر انتہا پسند ہندو بھڑک اٹھے، یہاں تک کہ بالی وڈ فنکاروں نے بھی لو جہاد کے نام سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جس کا اندازہ اداکارہ کنگانا راناوت کے اس دعویٰ سے کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ یہ (اشتہار) لوجہاد اور جنس پرستی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

لوجہاد بھارت میں ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے ایک ایسا شوشہ ہے جس کی آڑ میں اب تک درجنوں افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں اور ان کے خاندان والوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں ،ہندو شدت پسند تنظیمیں مبینہ لوجہاد کے خلاف ہمیشہ سے ہنگامے کرتی آ رہی ہیں اور بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر اس کے خلاف قانون سازی کے لیے اپنا دباؤ بڑھادیاہے۔


بھارت میں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق اس وقت لوجہاد کاکوئی ثبوت نہیں ہے مگرپھربھی لوجہاد کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے،بھارت کی کم از کم پانچ ریاستوں میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ مبینہ لوجہاد کے خلاف جلد از جلد سخت قانون لانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں ان ریاستوں میں مدھیا پردیش، ہریانہ، کرناٹک، اترپردیش اور آسام شامل ہیں،اترپردیش میں لوجہادکاقانون نافذکیاجاچکاہے جبکہ مدھیا پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے گزشتہ منگل کو اعلان کیا کہ اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں لوجہاد کے حوالے سے ایک قانون پیش کیاجائے گا جس کے تحت قصوروار پائے جانے والے کو پانچ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے اورضمانت بھی نہیں ہوسکے گی۔

اس سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ بھارت میں مسلم لڑکے اور ہندو لڑکیوں میں تعلقات ہوتے ہیں اور شادیاں بھی ہوتی ہیں اسی طرح سے ہندو لڑکے اور مسلم لڑکیوں میں پیار محبت پر مبنی شادیاں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ایسے میں جانبداری کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے ۔ایک کو لوجہاد کا نام دیا جا رہا ہے جبکہ دوسرے کو گھر واپسی کا نام دیا جاتا ہے۔اس طرح کی جانبداری سے ایک خاص ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔

لوجہاد ایک ایسی اصطلاح ہے جس نے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک نئی پہچان دلائی ہے۔اس اصطلاح سے انہوں نے کئی طرح کے فائدے اٹھائے ہیں اور آئندہ بھی وہ سیاسی فوائد سمیٹنا چاہتاہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہی کہا تھا کہ اگر کوئی مسلم لڑکا ایک ہندو لڑکی کے ساتھ نکاح کرتا ہے تواس کے بدلے میں سو مسلم لڑکیوں کو اٹھاکر لایاجائے،اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مودی کے بھارت میں کس طرح مسلمانوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔

بھارت میں ایک بار پھر منفی پروپیگنڈے پر مودی سرکارنے ہندو انتہا پسندی کوفروغ دیا۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے مشیر برائے اطلاعات شلبھ منی ترپاٹھی نے بھی اس معاملے میں سوال کیا ہے کہ یہ لو جہاد نہیں تو اور کیا ہے؟ ۔ ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل سمیت بعض تنظیمیں ان واقعات کو لو جہاد کا نام دے کر ان شادیوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔

اسی تناظر میں فرانسیسی نیوزایجنسی اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارتی میڈیا پر شمالی ریاست اتر پردیش کی ایک بیس سالہ لڑکی کو دکھایا گیا جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور جو یہ بتا رہی تھی کہ اسے اغوا کرنے اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اگرچہ گذشتہ ہفتے اسی خاتون نے ہنگامہ خیز انداز میں اپنے تمام الزامات یہ کہتے ہوئے واپس لے لیے کہ اس کے گھر والوں نے اس پر دباؤ ڈال کر من گھڑت کہانی سنانے کے لیے کہا تھا۔

یہاں پریہ بات بتاناضروری ہے کہ آج سے13سال قبل بھارت کے معروف انگریزی اخباردی ہندو کی 13 نومبر2009کی اشاعت میں کرناٹک سی آئی ڈی کی جانب سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ غیر مسلم لڑکیوں سے مسلم لڑکوں کی شادی میں لوجہاد کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اسی طرح پولیس کے جانب سے بھی یہ اعتراف کیا گیا تھاکہ اجتماعی یا انفرادی طور پر اس طرح کی کوششیں بھی کہیں نہیں پائی گئیں۔

پھردی ہندونے 23اپریل 2010 میں ایک خبرشائع کی کہ حکومت کرناٹک نے عدالت کو یہ رپورٹ بھی پیش کی تھی کہ لو جہاد جیسی کو ئی چیز ریاست میں نہیں ہے۔مودی کے گماشتوں نے جس طرح بھارت میں لو جہاداور مختلف خود ساختہ اصطلاحات کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف مارپیٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیاہواہے اوراب قانون سازی کے بعداس میں مزیداضافے کا امکان ہے اور دوسری طرف مسلمان بھارت کی دوسری بڑی آبادی ہیں ان کیخلاف نفرت کے بیج بونے کی مکمل تیاری ہوچکی ہے، آئے دن کبھی گاؤرکشا کے نام پر تو کبھی دہشت گردی کے نام سے ،کبھی شریعت میں مداخلت کے ذریعہ تو کبھی شعائر اسلام کو نشانہ بناکر،مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی سازشیں رچائی جارہی ہیں۔

بھارت میں محض شک کی بنیاد پرمسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے ،بھارت میں ہندوانتہاپسنداورآرایس ایس کے غنڈوں نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف زہر افشانی توکب سے شروع کی ہوئی ہے لیکن اب یہ نفرت اپنی آخری حدوں کوچھورہی ہے،حکومت کی جانب سے اس نفرت کو عام کیا جارہا ہے،انفرادی کے بجائے اجتماعی طور پر مسلمانوں کی مخالفت میں قوانین بنوائے جارہے ہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اب ا دارہ جاتی حیثیت اختیار کرچکی ہے اورنازی مودی نے مسلمانوں کیخلاف ایسی فضا پیدا کردی ہے کہ جہاں ان کی زندگیاں داؤپرلگ چکی ہیں ،مودی اورآرایس ایس کالوجہاد دراصل اسلاموفوبیا ہی توہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :