ہندوتوا انٹرنیشنل کانفرنس

اتوار 5 ستمبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

امریکہ میں11 ستمبر سے ہندوتوا پر تین روزہ آن لائن انٹرنیشنل کانفرنس جو کہ امریکہ کی 45 سے زائد یونیورسٹیوں کے60سے بھی زیادہ شعبوں کی مشترکہ سرپرستی میں منعقد ہونے جارہی ہے ،جس کی آن لائن رجسٹریشن کاعمل جاری ہے اس کانفرنس کی اسپانسرز میں اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیاں جیسے کولمبیا یونیورسٹی ، ایموری یونیورسٹی ، ہارورڈ یونیورسٹی ، نیو یارک یونیورسٹی ، رٹگرز یونیورسٹی ، پرنسٹن یونیورسٹی ، شکاگو یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے ، سان ڈیاگو اور سانتا کروزیونیورسٹی ودیگرشامل ہیں۔

بھارت میں انسداد ہندوتوا کے موضوع پر آن لائن کانفرنس میں امریکہ ، بھارت اور دنیا بھر کے ستر دا نشور شرکت کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں بھارتی صحافی، سماجی کارکن، دانشوراور اساتذہ بھی حصہ لیں گے۔

(جاری ہے)

بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے کھلے عام یہ اعلان کیا گیا ہے کہ جو بھی بھارتی اس آن لائن کانفرنس میں شرکت کرے گا اسے جان سے مار دیا جائے گا یا پھر اسے زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گادوسری طرف اس کانفرنس کے ذریعے بھارت میں جاری نازی ازم کے پیروکارمودی اوربھارتیہ جنتاپارٹی کی دہشت گردتنظیم آرایس ایس کے اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اوردہشت گردی کی کارروائیوں سے متعلق مہذب دنیاکوآگاہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔


ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہٹلر نے غیر جرمنوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تھی بالکل اسی طرح یہ مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر علاقوں میں آباد غیر ہندؤوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔مہاتما گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعد جب راشڑیہ سیوک سنگھ کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تو اس کے نیتاؤں نے اپنا دامن صاف دکھانے کے لیے نئی سیاسی جماعت جن سنگھ قائم کرلی تھی جو ملک میں ہندو راج چاہتی تھی جوبعد میں بی جی پی بن گئی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسی ایجنڈے کوآگے بڑھایا اور مسلمان دشمنی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔بھارت میں عام تاثر ہے کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اس وقت زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں تاکہ آر ایس ایس کو محفوظ رکھا اور دکھایا جا سکے۔عالمی مبصرین کاخیال ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہٹلر کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس کی حرکات و سکنات بتاتی ہیں کہ وہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ بھارت میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

بھارت میں گزشتہ چند ماہ کے دوران شدت اختیار کرتی کارروائیاں اس کی بھرپور عکاس ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔ہجومی تشدد والے کسی بھی مسلمان کو تنہا گھیر کر اس سے ہندوانہ نعرہ لگواتے اور حرام کھلاتے ہیں اور نہ ماننے پر قتل تک کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بزرگوں سے لے کر معصوم بچے تک بن رہے ہیں اور کسی بھی جگہ سے کوئی حکومتی کارروائی عمل میں نہیں آرہی ہے۔

جس طرح ہٹلرنے غیر جرمنوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تھی بالکل اسی طرح نریندر مودی نے بطور وزیراعلی گجرات 2002 میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی اپنی سرپرستی میں کرائی تھی۔ اس وقت لاتعداد مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا تھا،مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا تھا،مسلمان خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی اور عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ پولیس سمیت دیگر متعلقہ اداروں نے محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا تھا۔

سانحہ گجرات کے بعد ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں نریندر مودی کو قصائی کے نام سے پکارا گیا تھا اور امریکہ نے ویزہ تک دینے سے انکار کردیا تھا۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو انسانیت کا قاتل بھی قرار دیا تھا۔آر ایس ایس کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے مرحوم بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے مئی 2017 میں خبردار کیا تھا کہ راشڑیہ سوائم سیوک سنگھ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جموں کے بعد کشمیر آر ایس ایس کا اگلا ہدف ہے۔اس طرح یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)نے بھارت کے ایسے تمام علاقوں کی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ہیئت، تناسب، تاریخ اور جغرافیہ تبدیل کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے،پہلے اتر پردیش میں سینکڑوں مسلمان خاندانوں کو جو ذبح خانوں اور چمڑے کی صنعت جس سے ان کاروزگار وابستہ تھا ،گاؤکشی کے خلاف چلائے جانے والی تحریک کی زد میں لا کر دوسرے علاقوں میں ہجرت پر مجبور کر دیا۔

بھارتی اورانٹرنیشنل میڈیا نے اس پرمجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔کیرالہ میں لو جہاد کے نام سے ایک بڑی مہم چلائی گئی اور مسلمانوں کو ہندو لڑکیوں کو ورغلانے کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ میڈیا نے اس کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اسے بطور ہتھیار مسلمانوں پر آزمایا۔اب کیرالہ کے بغل میں دلکش جزیرے لکشدیپ پر ہندوتوا نے نشانہ باندھا ہے جس کا مقصد 65 ہزار مسلمانوں کی وہ آبادی ہے جو اب تک بھارت کی سیاسی، اقتصادی یا معاشی اعتبار سے نہ کبھی کوئی مسئلہ بنی ہے اور نہ کسی تنازعہ کا حصہ رہی ہے۔

لیکن مسلمان ہونے کے باعث بظاہر بی جے پی کے راڈار پر کشمیر کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔بی جے پی کی مرکزی حکومت نے جب سے گذشتہ برس 5 دسمبر کو گجرات کے سرکردہ سیاست دان پرفل کھوڑا پٹیل کو لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مقرر کیا ہے تب سے یہ علاقہ نہ صرف عالمی میڈیا کی سرخیوں میں آنے لگا ہے بلکہ یہاں کے عوام پر زور زبردستی کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔

پٹیل نے چارج سنبھالنے کے فورا بعد اس جزیرے میں کئی نئے قوانین کا اطلاق کیا جن میں نئی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ شراب کی فروخت کی آزادی اور گاؤکشی پر پابندی شامل ہے۔ اس علاقے میں 99 فیصد مسلمان سکون سے رہتے آئے ہیں۔ بی جے پی نے لکشدیپ کے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے، وہ اس علاقے میں ترقی نہیں بلکہ مسلمانوں کی بربادی چاہتے ہیں۔


بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)نے جہاں ہندوتوا سوچ کی آبیاری کے لیے سوشل میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا کی خدمات حاصل کی ہیں وہیں اقتدار میں آنے سے پہلے ہی اندرون اور بیرون ملک ایسے ادارے بھی قائم کیے تھے جن کے لائحہ عمل میں دنیا کے ہندؤوں کو جوڑنے اور ان میں ہندوتوا کے جذبات کو ابھارنا شامل تھا،انڈیا فاونڈیشن ایسا ہی ایک ادارہ ہے جس کے ذمے ایک مخصوص سوچ کی آبیاری، میڈیا کو اس سوچ کے تحت انفارمیشن دینا اور ہندوتوا کے قومی تشخص کو اجاگر کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

بظاہر اس ادارے کو تھنک ٹینک کا نام دیا گیا ہے لیکن اس میں ریسرچ یا سروے یا تحقیقی مقالے زیادہ نظر نہیں آئیں گے۔میڈیا پورٹل دا وائیر کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا فاونڈیشن کو چلانے والے بیشتر وہ لوگ ہیں جن کا تعلق بھارت کے خفیہ ادارے را یا آر ایس ایس سے ہے۔رپورٹ میں برطانیہ میں قائم سیوا انٹرنیشنل خیراتی ادارے کے بارے میں بھی انکشاف کیا گیا کہ اس نے برطانیہ کے بااثر شخصیات کو ادارے میں شامل کر کے کروڑوں روپے جمع کروائے مگر کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سیوا انٹرنیشنل اصل میں ایچ ایس ایس کے لیے کام کر رہا ہے جو بھارت میں کلیان آشرم کے زیر سایہ ہزاروں افراد کا مذہب تبدیل کرنے اور مسلم کش فسادات کروانے کی ذمہ دار ہے۔

اب ذراماضی میں جھانک کردیکھتے ہیں ۔ بھارتی سیاست میں آرایس ایس کے کردار کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا 27 ،ستمبر1925 ء کو جنم لینے والی کچھ لوگوں کی جماعت ایک دہشت گردی اورسفاکیت اورانتہاپسندی عفریت بن جائے گی یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا، آر ایس ایس کبھی بھی برٹش حکمرانی کے خلاف نہیں لڑی اور نہ ہی ہندوستان چھوڑو موومنٹ کا حصہ بنی۔

آر ایس ایس کی قیادت دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے بارے میں ایڈولف ہٹلر اور مسولینی کے نسل پرستانہ رویے کی معترف رہی اور اس کے ساتھ ہی وہ یہودیوں کی ایک الگ ریاست کی بھی زبردست حامی رہی۔1927 کے ناگپور فساد میں اس کا اہم کردار تھا تو 1948 میں مہاتما گاندھی کا قتل اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن ناتھورام ونائک گوڑ نے کیا تھا۔

۔حیرت کا مقام یہ ہے کہ آج کے ہندوستان پر حکومت کرنے والی آر ایس ایس اور اس کی انتہا پسندانہ مسلح جدوجہد کی تاریخ کو ہندوستان کی عوام اور فوج بھول چکی ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ آر ایس ایس کی مزید شاخیں وجود میں آئیں اور بی جے پی کے علاوہ بجرنگ دل، بھارتیہ کشن سنگھ، شیو سینا، وشوا ہندو پریشد اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے جنم لیا لیکن ان سب کا مذہبی انتہا پسندانہ فلسفہ اور ٹریننگ آر ایس ایس کے ماتحت ہی ہوتی رہی۔

سنگھ پریوار کا کام مسلمانوں اور عیسائیوں پر حد سے زیادہ ظلم کرناہے تاکہ وہ یا تو ہندو مذہب اختیار کریں یا ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں۔احمد آباد فساد، تلشیری فساد اور جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات بھی اسی کے شیطانی ذہن کی اختراع قرار دیے جاتے ہیں۔ دسمبر 1992 میں جب بابری مسجد کا انہدام ہوا تو اس کی پشت پربھی یہی تنظیم موجود تھی اورمسلمانوں کوتلواروں ،نیزوں اورچاقوؤں سے چھلنی کرکے مارڈالا یا پھرانہیں زندہ جلاڈالا،بابری مسجد کی شہادت اورآر ایس ایس کے جنونی رویے نے ہندوتوا کو بین الاقوامی سطح پر شہرت بخشی،بابری مسجد کی شہادت کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی گئی بھارت کی مختلف حکومتوں کی جانب سے کئی واقعات کی تحقیقات کے لیے جب کمیشنز بنائے گئے تو انہوں نے بھی اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں آر ایس ایس کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔

جن فسادات میں سرکاری طور پر اس تنظیم کو ذمہ دار قرار دیا گیا ان میں احمدآباد فساد پر تیار ہونے والی جگموہن رپورٹ، بھیونڈی فساد پر ڈی پی ماڈن رپورٹ، تلشیری فساد پر وتایاتیل رپورٹ، جمشید پور فساد پر جتیندر نارائن رپورٹ، کنیا کماری فساد پر وینوگوپال رپورٹ اور بھاگلپور فساد پر تیار کی جانے والی رپورٹ شامل ہیں۔2002 میں2500 سے زائد بے گناہ نہتے مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں نے شہید کیا۔

ہیومن رائٹس واچ اور دوسرے عالمی اداروں نے وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، اور بی جے پی کوذمہ دارٹھہرایا،خود انڈیا کی اعتدال پسند قوتیں اور معروف اسکالر پال براس ، مارتھا نوسبام اور دیپانکر گپتا بھی مودی اور اس کے حواریوں کو گجرات قتل عام کا ذمہ دار سمجھتی رہی ہیں۔مودی کی مسلمان دشمن پالیسی اوبچرمودی کا لقب ملنے کے بعد سنگھ پریوار نے مودی کو بڑی ذمہ داری سونپی اور ہندوستان کا وزیر اعظم نامزد کیا۔

آر ایس ایس کے ایک پرچارک سوامی اسیمانند نے اعتراف کیاہے کہ وہ2007 کے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں جس میں 68 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل پرساد شیری کانت پروہت کے ساتھ شریکِ جرم تھا،پروہت مہاراشٹرا اینٹی ٹیررازم سکواڈ کی نظر میں دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔29 ستمبر 2008 کوریاست گجرات اور مہاراشٹر امیں ہونیوالے تین بم دھماکوں میں بھی پروہت ذمہ دار ٹھہرا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں اپنے جوہردکھانے والے بدنام زمانہ شیری کانت پروہت کے خلاف تفتیش کرنیوالے مہاراشٹرا اینٹی ٹیررازم سکواڈ کے چیف ہیمنت کرکرے کو 26 نومبر 2008 کو ممبئی حملوں میں مار دیا جاتا ہے۔سوامی اسیمانند نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ 2007 کے درگاہ اجمیر شریف دھماکے میں بھی ملوث تھا جس کا حکم آر ایس ایس کے جنرل سیکرٹری موہن بھگوات نے دیا۔

جنوری 1999 میں دارا سنگھ نامی پرچارک نے ایک عیسائی مشنری اور اس کے دو بیٹوں کو زندہ جلا دیا تھا۔یہی نہیں مسیحی گروپوں نے 2008 میں اڑیسہ میں ہونیوالے پرتشدد واقعات میں آر ایس ایس کو ملوث قرار دیا۔لکھنے کوبہت کچھ ہے لیکن صفحات کی کمی نے مزیدلکھنے سے روک دیا۔ اس وقت بھارتی مسلمان گھمبیر صورتحال سے دوچار اور سخت پریشان ہیں انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کون ساراستہ اپنائیں اورکہاں جائیں کیونکہ بھارت میں ان کیلئے زمین آہستہ آہستہ تنگ ہوتی جارہی ہے،ان حالات میں مسلمان اپنا سر چھپانے کیلئے سرگرداں ہیں اورآج ان کے کانوں میں دوقومی نظریہ اور ہمارے عظیم قائدحضرت قائداعظم محمدعلی جناح کے سنہری الفاظ پچھتاوے کے ساتھ ان کے دل ودماغ میں گونج رہے ہیں کہ کاش اس وقت ہم قائداعظم محمدعلی جناح کاکہنامان لیتے توان حالات کاسامنانہ کرناپڑتاکیونکہ قائداعظم ہندوؤں کے بارے میں ٹھیک کہتے تھے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :