سیاہ فام کے خون سے امریکہ کو آگ لگ گئی

منگل 9 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

امریکہ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے خلاف مظاہرے ایک تحریک میں تبدیل ہوچکے ہیں۔فلائیڈ کی موت سے قبل ریاست مزوری کے شہر فرگوسن میں مائیکل براون اور نیویارک شہر میں ایرک گارنر کی ہلاکت کے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے ”بلیک لائف میٹر“ یعنی سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہم ہیں، نامی تحریک نے زور پکڑا تھا۔

امریکہ میں فلائیڈ کی موت پر شدیدعوامی ردعمل معاشی عدم مساوات اور نسلی امتیاز ہے لیکن اس مرتبہ ایک نئی بات دنیا کو دیکھنے کو یہ ملی کی سیاہ فام کے ساتھ سفید فام افراد نے بھی احتجاج میں بھرپور حصہ لیا۔یہ وہ سفید فام لوگ تھے جو نسلی امتیاز کے خلاف تھے۔احتجاجی مظاہروں کے دوران امریکہ کے کئی شہروں میں پولیس کی گاڑیاںنذر آتش کی گئیں،سرکاری عمارتوں کو آگ لگائی گئی ، مارکیٹوں ،سٹورز،مالز میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔

(جاری ہے)

کورونا کے خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فلائیڈ کی یاد میں لوگوں نے آٹھ منٹ اور 46 سیکنڈ تک زمین پر اوندھے منہ لیٹ کراسی طرح احتجاج کیا جس طرح پولیس اہلکاروں نے جارج فلائیڈ کو زمین پر دبوچے رکھا تھا۔
جارج فلائیڈ کے قتل پر مظاہرے اور احتجاج صرف امریکہ تک محدودنہیں رہے بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔ لندن میں مظاہرین نے سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے مجسمے کو نقصان پہنچایا، توڑ پھوڑ کی ، برسٹل میں 17 ویں صدی میں غلاموں کی تجارت کرنے والے تاجر کا مجسمہ گرا دیا گیا۔

برطانیہ، اسپین، بیلجیئم، برازیل میں بلیک لائیوز میٹر ریلیاں نکالی گئیں۔مریکا کے قصبوں سے لے کر بڑے شہروں میں میں عوام سراپا احتجاج ہیں۔مین ہیٹن میں سیکڑوں مظاہرین ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اور ٹاور کے باہر جمع ہو کر”ٹرمپ کو باہر پھینک دو“،” نو جسٹس نو پیس “کے نعرے لگائے۔واشنگٹن میں ریپبلکن سینیٹر مٹ رومنے کی قیادت میں بھی ہزاروں مظاہرین نے وائٹ ہاوس کی طرف مارچ کیا اور نسلی تعصب کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

برطانوی شہر برسٹل میں مظاہرین نے 17 ویں صدی میں غلاموں کی تجارت کرنے تاجر ایڈورڈ کولسن کا مجسمہ گرا دیا اور اسے دریا میں پھینک دیا۔اسپین کے شہر بارسلونا میں سیاہ فام جارج فلائیڈ سے اظہار یکجہتی کیلئے گورنر ہاوس کے سامنے ہزاروں لوگوں نے ”بلیک لائیوز میٹر“ یعنی” سیاہ فاموں کی زندگیاں اہم ہیں“کے نعرے لگائے۔بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں احتجاج کے دوران حالات کشیدہ ہو گئے۔

برازیل میں بھی ہزاروں مظاہرین نے فلائیڈ کے قتل اور ملک میں پولیس کے تشدد کے خلاف ریلیاں نکالیں۔
آخر 6فٹ 4انچ ہائیٹ کے چھیالیس سالہ باسکٹ بال کے کھلاڑی جارج فلائیڈ کے ساتھ ہوا کیا تھا؟دو بیٹیوں سمیت پانچ بچوں کے والدجارج فلائیڈکو فیملی اور دوست احباب پیار سے پیری کہتے تھے۔جارج باسکٹ بال کا کھلاڑی رہ چکا تھاپھر اس نے ایک سیکیورٹی ایجنسی میں ملازمت شروع کر دی۔

حال ہی میں کورونا وائرس کی وجہ سے اس کی نوکری بھی ختم ہوچکی تھی۔25 مئی کو جارج نے ایک دوکان سے20ڈالر کاسگریٹ کا پیکٹ لیا اور اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا،اسی دوران دوکاندار نے نوٹ اصلی نہ ہونے کے شبے میںپولیس کوفلائیڈ کے خلاف پورٹ درج کرادی۔کچھ ہی لمحوں میں پولیس وہاںآگئی۔فلائیڈ ابھی بھی اپنی گاری میں بیٹھا ہواتھا،چار پولیس اہلکاروں نے گاڑی کو گھیرا ڈال کرفلائیڈ کو یوں گاڑی سے نیچے اتارا جیسے کوئی دہشت گرد ہو۔


پولیس نے فلائیڈ کے ہاتھ کمر کی طرف کر کے ہتھکڑی لگادی اور زدوکوب کرنے لگی ۔خدا کی قدرت ،اس منظر کو راہگیروں نے اپنے موبائل کیمروںاور وہاں لگے سی سی ٹی کیمروں نے محفوظ کر نا شروع کر دیا ۔ پولیس نے اس کو زمین پر اوندھے بل گرا دیا۔ان میں سے ایک پولیس افسر ڈیرک نے فلائیڈ کو زمین پر اوندھے بل گرا کر اپنے گھٹنے اس کی گردن پر رکھ دیئے۔

فلائیڈ پولیس افیسر کی منتیں کرنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو،مجھے سانس نہیں آرہا،لیکن پویس افسر نے اس کی ایک نہ سنی ۔آٹھ منٹ چھیالیس سیکنڈ تک ڈیرک نے فلائیڈ کی گردن دبائے رکھی جس کی وجہ سے اس کا سانس رک گیا،آکسیجن دماغ تک نہ پہنچ سکی اور اسے ہارٹ اٹیک ہوگیا۔اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں اس نے دومرتبہ اپنی ماں کو پکارا”ماما،ماما“اور پھر وہ اس بے رحم دنیا سے چلا گیا۔

چلتی سڑک کا فٹ پاتھ اور راہگیر اس بات کے گواہ تھے کہ فلائیڈ کوپولیس نے بے رحمی سے قتل کیا۔راہگیروں کی بنائی ویڈیو وائرل ہوتے ہی امریکہ کو آگ لگ گئی ،ریاست میں فسادات پھوٹ پڑے ہیں ہجوم کورونا وائرس لگنے کے خطرے کے باوجود سڑکوں پر احتجاج کر رہا ہے۔ توڑپھوڑ، آگ اور دھواں پھیل رہا ہے۔ گھروں میں بھی لوگ خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے کرفیو لگایا گیا لیکن لوگ کرفیو توڑ کر احتجاج کرتے رہے۔

پولیس آفیسرز کو معطل کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے ۔آج دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ امریکہ کی طرح بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی کس طرح مسلمانوں کے ساتھ نسلی و معاشرتی امتیاز روا رکھا جارہا ہے۔کشمیری مسلمان آزادی سے سانس لینے کے لیے سڑکوں اور چوراہوں پراپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ۔وہ دن اب دور نہیں جب نہتے معصوم کشمیریوں کا خون بھی بھارت کو جلا کر راکھ کر دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :