جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

ہفتہ 22 اگست 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

سفاک کون ؟ ملوکیت یا جمہوریت  ،یہ سنتے شاید عمریں گزریں ۔ جمہوریت کے پیرو کاروں نے ہمیشہ شہنشاہیت کو جھٹلایا اور عام عوام کی بھلائی کا آئینہ دکھایا ۔ شہنشاہیت ہمیشہ جابر و ظالم دکھائی گئی اور جمہوریت کے چہرے پہ انسان دوستی کی ملع  کاری کی گئی ۔ آج کے حالات کے مطابق جب میں دونوں کو تولتا ہوں تو ایک طرف اگر سفاکیت نظر آتی ہے تو دوسری طرف مکاری ۔

ہر دو صورتوں میں فائدہ طاقتور ہی اٹھاتا ہے اور جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی سناتا ہے ۔ شہنشاہیت میں اگر خاندانوں کا راج ہے تو جمہوریت میں پارٹیاں چہرے بدلتی ہیں لیکن منشور و مقصود وہی ایک رہتا ہے ۔ جمہوریت کا وار اکثر اپنی سرحدوں سے باہر ہوتا ہے جہاں وہ انسان کو ایک جانور سے بد تر درجہ دیتی ہے اور شہنشاہیت سرحدوں کے اندر زیادہ گزند پہنچاتی ہے لیکن دونوں کا شکار ایک بنی نوع انساں ہے ۔

(جاری ہے)

قتل و غارت شہنشاہیت نے زیادہ کی ہے یا جمہوریت نے تو یقینا" یہ سہرا جمہوریت کے سر سجے گا ۔ جنگ عظیم اول ہو یا دوم فاتح اور مفتوح آج بھی خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں اور ان کی راہ میں کام آنے والے کیا ہیں مظلوم یا مخدوم فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔ میں جب لیبیا ، عراق ، شام ، لبنان اور افغانستان کی تباہی دیکھتا ہوں تو اس خون آشام اسٹیج پہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت پسند معاشرے کے حاکم کو سر پہ تاج سجائے دیکھتا ہوں ۔

ان ممالک کی تباہی کسی شاہ نے نہیں کی بلکہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے وہ ہی ہیں جو جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور انسانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں- نیٹو کا اتحاد کس کے لئے ہے یہ بھی تو طے کرنا ہے- سابق وزیر اعظم  ٹونی بلئیر صاحب نے جب اپنے نیٹو الائیز کے ساتھ مل کے عراق پہ یلغار کی تھی تو کیمیائی ہتھیار تو سامنے نہیں آئے تھے لیکن جس کو سزا  دینا مقصود تھا وہ ضرور پھندے پہ جھولا تھا-
 اگر ماضی پہ نظر دوڑاوں تو اپنے خطے میں مجھے ماضی کے رستے ناسور اور زخم ایک ایسے ہی جمہوری سلطنت کے دیے محسوس ہوتے ہیں جو خود میں نہ تیتر ہے نا بٹیر ۔

ملکہ بھی ہے اور وزیر اعظم بھی ہے ۔ وزیر اعظم کا انتخاب ملکہ کی بجائے عوام کرتی ہے لیکن اس وزیر اعظم کی شکل اگر دیکھنا ہو تو مجھے ونسٹن چرچل دیکھ لینے دو ۔ برصغیر پہ چھائے بھوک افلاس کے سائے لیکن سارا مال انگلستان کو ہی جائے کا علمبردار چرچل ۔  ہندوستان میں بسی عوام خالی پیٹ ایڑیاں رگڑ رہی تھی تو کسی نے کہا ونسٹن چرچل سے کہا کہ برصغیر میں بھوک افلاس سے لوگ مر رہے ہیں تو جمہوری چہرے کے منہ سے یہ تاریخی الفاظ نکلے لیکن گاندھی تو ابھی زندہ ہے ۔

لبنان کی تباہی ایک ایسے ملک کا تحفہ ہے لیکن  انسانی جانوں سے بر سرِ پیکار ہے -  برصغیر پہ کئے گئے ظلم کب ہم سے پوشیدہ ہیں ۔ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے  اسی کو بھانپتے کہا تھا
جلال   پادشاہی   ہو   کہ  جمہوری   تماشا   ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اگر دین اور سیاست کا یہ شاہکار دیکھنا ہو تو ہمارا ہمسایہ حاضر ہے –  ہندو دھرم کے مطابق کیلاش کی پہاڑیوں  میں جا بسے ان کے شیوا ،ان کا خاندان ، انہیں ان پہاڑیوں پہ اپنا جلوہ کرواتے ہیں- مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں اس پہ تبصرہ کروں لیکن اس مذہبی  آڑ میں نیپال کا ہتھیایا علاقہ ہو یا لیپو لیک تک سڑک کی تعمیر اور پھر وہاں سے کشمیر  و لداخ کا کنٹرول تو بہت کچھ سیاسی ہو رہا ہے- کوئی مذہب بھی قتل و غارت گری اور عصمت دری کا درس نہیں دیتا ہے- لیکن ان علاقوں کو زیر ِ نگیں کرنے کے واسطے مودی جی اور ان کی  ہندواتہ  سوچ ہر قسم کا ظلم اٹھائے ہوئے ہے- کشور کشائی ان کا نصب العین ہے لیکن مذہب وہ  بہانہ ہے جس کا انسان اک نشانہ ہے – بظاہر ووٹ کی اکثریت سے آئے صاحب بہادر نے اقلیتوں پہ اپنا جمہوری وار یوں کیا ہے کہ  خدا کی پناہ- شاید یہ کسی بھی معاشرے میں ایک انسانی کھیل نہ ہو لیکن جمہوریت کی عیاری میں شکاری اپنا کھیل کھیلے ہوئے ہے- اس سے کئی سوالات تو اٹھے تھے کہ یہ جمہوری سوچ تھی یا اندھی طاقت کا نشہ- کیا  عیسائیت  میں خون کا  یوں بہانا  جائز ہے-
اپنے ملک کی بات کروں تو بادشاہت اور حکمران وہ خاندان نظر آتے ہیں جو خود کہتے ہیں کہ وہ حاکم ہیں لیکن اپنی بادشاہت یوں جمہوریت کے پروں میں چھپائے بیٹھے ہیں کہ جب مشکل وقت آئے تو اڑن چھوں کے مصداق کہاں ملتے ہیں ۔

دولت کے انبار ایسے کہ دولت مند ملکوں کے مال دار بھی سہم جائیں ۔ دینے پہ آئیں تو غریبوں کو ان کے اکاونٹوں میں اربوں تک دے دیں جن کی بابت وہ سڑکوں پہ ٹھیلے لگانے والے بھی نہ جانے کہ جمہوریت نے انہیں کتنا مال دار کیا ہوا ہے ۔ ان کے اربوں کے مقدمے بھگتے یہ پاپڑوں والے کیا خود جمہوریت کے منہ پہ طمانچہ نہیں ہیں ۔
میں تو سوچتے  تھک گیا ہوں اوراس مغز ماری کے بعد میں تو اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ اس دنیا کی بقا کو کوئی اور نظام چاہیئے ۔

شاید وہ نظام پندرہ سو سال پہلے اپنے آپ کو منوا چکا ہے لیکن وہ نظام سرمایہ دار کی موت ہے اور ویسے بھی آج کل دنیا سرمایہ دار کے شکنجے میں ہے- جب تک یہ جمہوریت دین کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہوگی تب تک یہ ایک چنگیزی عمل ہی رہے گا – اس جمہوریت کے پنجے میں بنی نوعِ انساں یونہی پناہ مانگے گا کیونکہ جلالِ پادشاہی ہو یا  جمہوری تماشا ہو  جب تک اس کا استحصال کرے گا تو سروں کے مینارہی کھڑے کرے گا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :