حالات کا ماتم ہے

جمعہ 6 نومبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ہر جگہ ، ہر مقام پہ جمہوریت کا مجسمہ ٹوٹ رہا ہے ۔ نہ کوئی رحم دل شہزادہ ہے نہ کوئی پڑھا لکھا عظمتوں کا علمبردار ۔  جب پڑھائی صرف اچھی نوکری کے حصول تک محدود رہ جائے تو وہ روح کو پاکیزگی اور جال نہیں بخشتی بلکہ اس کی  تسکین کو جرائم کی دنیا میں سکہ بٹھانے اور پھر فرار کے کئی محفوظ راستے دکھانے میں مصروف رہتی ہے ۔ انسان کے اوپر تہذیب تو صرف وہ ملمع کاری ہے جس نے اندر کے بسے بشر کے شر کو ڈھکا ہوا ہے ۔

امریکہ کے انتخابات نے انسان کے  اندر بسی اس ظلم کی دنیا کو آشکار کر دیا ہے جس میں گورے کالے کے درمیان ۔ خادم مخدوم کے درمیان اور حاکم محکوم کے  درمیان ہر چیز کو ننگا کر دیا ہے ۔ نیو یارک اور واشنگٹن کی سڑکیں اسی استحصال کے مناظر پیش کر رہی ہیں ۔

(جاری ہے)

اگر ریاست  ہائے متحدہ امریکہ کا یہ حال ہے تو وطن عزیز کی فضائیں بھی کچھ محفوظ نہیں ۔ کسانوں پہ چال ڈنڈا اور اس کے نتیجے میں  ملک اشفاق لنگڑیال کا قتل شاید ان کے ضمیر کو نہیں جھنجوڑ رہا جن سے مالقات تو شاید اس کی قسمت میں نہیں لکھی تھی  مگر اس میں ایک حالت زار دکھانے اپنا حال سنانے کا ماتم ضرور شامل تھا جس کی شنوائی اب اس کے خاموش الفاظ اور شاید  پتھرائی آنکھیں کر سکیں ۔

ظلم سہنے کے تو ہم عادی تھے لیکن ہر امید کی کرن بھی اب تو نہ صرف بجھتی دکھائی جا رہی ہے بلکہ بڑھ کے بجھائی بھی جا رہی ہے ۔ روشنی چھینی جا رہی ہے ۔ روٹی کی قیمت چکانے اور اپنے گھر کا چولہا جالنے کی  فکر میں ایک اور ظلم کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے جو اس کی زندہ مثال ہے ۔ چینی ۔ آٹا چور عزت و تکریم کے سنگھاسن پر  بیٹھے ہیں ۔ بھوکے پیٹ احتجاج کرتا قبر میں لٹا دیا گیا ہے ۔

معاشرے کی تو یہ حالت ہے کہ ماڈل ٹاؤن الہور میں قانون کے  رکھوالوں کی ایک منصف سے مالقات گو سوشل میڈیا کی زینت تو ضرور ہے لیکن باقی اداروں کو گنگ کئے ہوئے ہے ۔ ناک سے بہتا خون عدل اور قانون کی ناک کاٹ کے اس کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کر رہا ہے ۔ ایسی ہی مالقات سڑکوں پہ  ڈنڈے سوٹے آتشیں اسلحہ اٹھائے الہور میں دل کے ہسپتال میں آکسیجن کی الئنیں کھینچ کے ماضی میں بھی ہوئی تھی ۔

عام  شہری ۔ مریض اور لواحقین جان سے گئے تھے ۔ چند بڑے بڑے لوگوں پہ الزام آیا تھا تو سب کچھ باال ہی باال طے ہو گیا تھا ۔  
ایک ایسی ہی مالقات اسالم آباد میں ظہرانے کی صورت طے تھی جہاں عوام کی حالت پہ ماتم کرنے کے لئے کھانے سجائے  گئے تھے ۔ ق لیگ جن کو چور ، ڈاکو کے خطابات دینے والے چشم برآء تھے ۔ اپنے گریبان میزبانوں نے خوب بند کئے ہوئے  تھے کہ کہیں ان کی چوری کی داستانیں نہ نکل سکیں ۔

اتحادی کہتے ہیں کہ وہ ووٹ کے اتحادی ہیں کھانے کھالنے کے اتحادی  
نہیں لیکن وہ یہ کہنا بھول گئے ہیں کہ کھانے اور طاقت دکھانے کے معامالت میں آپ اندر کھاتے اتحادی ضرور ہیں ۔ نہیں تو بنکوں اور ملوں کی بیلنس شیٹس یونہی چپ نہیں ہیں ۔  
حیدر امام رضوی صاحب امریکہ سے دوبئی اور دوبئی سے والدہ محترمہ سے مالقات کو کراچی گئے تو ایم کیو ایم کھانے پہ اسالم آباد آئی ۔

قانون اور اصول کی باتیں کرنے والے آج ہر بڑے جرم سے پردہ پوشی کرتے عوام پہ خوب برس رہے ہیں ۔  عجب بندر بانٹ ہے ۔ اپنے عہدے سے تجاوز کرنے اور کرپشن کے الزامات پہ وزارتوں سے ہٹائے جانے والے پھر ان ہی وزارتوں پہ متمکن برنال لگا رہے ہیں ۔ کوئی اس احتساب کا جواب نہیں دیتا جس مشین میں وہ دھوئے گئے ہیں کہ الزام لگانے والے بھی چپ ہیں ۔  
ہر بڑا ضمانت پہ کھڑا لندن سے یا کبھی گلگت بلتستان سے ریاست کو للکار رہا ہے ۔

مجھے تو یہ سمجھ آتا ہے کہ گدی سے  زبان کھینچنے کے لئے زبان کی لمبائی کو پیمانہ اور معیار بنا لیا گیا ہے ۔ زبان لمبی ہو گی تو امان ہی امان ہے ورنہ بلوچستان  کے بعد سے کیا نہیں کہا گیا ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک سخت مقابلہ ہے حکومت اور اپوزیشن میں جہاں دونوں اس  
کوشش میں مصروف ہیں کہ اگر اکھاڑہ کرپشن کا ہے تو کون اپنے آپ کو فاتح منوا سکے ۔ بات قانون توڑنے کی ہے تو بڑا قانون شکن کون ۔ ملک کے بخیئے ادھیڑنے میں چمپیئن کون ۔ بات بات پہ این آر او کا تذکرہ ہے لیکن ہر کوئی این آر او پا رہا ہے اگر نہیں مل رہا تھا اس عوام کو نہیں مل رہا جسے حاالت کی چکی میں خوب پیسا جا رہا ہے ۔ یہ ہی آج کے حاالت کا رونا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :