وگدی ندی دا پانی

جمعرات 19 نومبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

بدلتی دنیا بدلتے حالات۔ چین پہ عالمی طاقتوں کا دباؤ اور پاکستان کو اس کے ساتھ کھڑا ہونے کی قیمت ادا کرنی ہے۔ جب بھی بٹوارہ ہوتا ہے تو ہر وہ چیز شمار ہوتی ہے جو کسی وقت اور گزرے کل کو ئی معنی نہیں رکھتی لیکن آج اس کے وزن کے برابر پورا دام لیا جائے گا۔ ایک دوسرے پہ دشنام طرازی کرتے الزام بھی لگتے ہیں اور گھر کا طاقتور کان بھی کھینچتا ہے کیونکہ  یہ اس کے پاس موجود آخری موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکے- یہی کچھ آج کل ہو رہا ہے کہ رخ بدلتے پاکستان کے مکھ کو داغدار کیا جائے اور اس سے بلاک بدلنے کا پورا مول چکایا جائے۔

یہ آخری موقع ہے جب اسےاسرائیل  کو تسلیم کرنے کے لئے گھٹنوں پہ لایا جائے۔ جس کے حصول کے لئے چاہے افرادی قوت کی طنابیں کھینچنا  مطلوب  ہوں یا پھر گڑے مردے اکھاڑنا  مطمع نظر ٹھہرے۔

(جاری ہے)

2017ء میں قندھار میں  جان سے گئے سفارت کاروں کا الزام اس وقت تو ایران پہ تھا لیکن اب امارات کی طرف سے   اسے حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی خفیہ ایجینسیوں سے  منسلک کرنا  اسی تبدیلی کا شاخسانہ ہے جو اوراق پہ لکھی ہے۔

رواں سال اگست  پاکستانی وزیر خارجہ کا مسئلہ کشمیر پہ او ۔ آئی ۔ سی کو  خبر دار کرنا بھی آقاؤں کو خوب کھل رہا ہے کہ جن کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑے رہنے والے ان کو کہہ رہے ہیں کہ اگر ہندوستان کے کشمیر میں 370 کے اجراء کو روکنے کے لئے  اگر وزرائے خارجہ کی او ۔ آئی ۔ سی کے زیر انتظام میٹنگ نہ بلائی گئی تو  ہم اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ بلائیں گے اور ان کے سامنے یہ غیر انسانی رویہ اور ہندوستان کا وہ بھیانک چہرا رکھیں گے جس کے جبڑوں سے مظلوم کشمیریوں کا خون بہہ رہا ہے۔

پاکستان کے  ترکی کے  ساتھ تعلقات میں گرم جوشی بھی اس میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے جس نے مسئلہ کشمیر پہ کھل کے پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور بھارتی جارحیت کی مذمت کی ہے۔ جب کہ دوست اسلامی ملک نے پاکستان کو 27 اکتوبر کے یوم  کشمیر کو یوم سیاہ کے طور پہ منانے سے منع کیا تھا۔ پاکستان کو دوست ملکوں کی دوستی سے محرومی اور  دست شفقت  کے اٹھ جانے سے ڈرایا جا رہا ہے اور اسے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس طرح آہستہ آہستہ اپنے دوست کھو دے گا لیکن پیغام دینے والوں کو بھی اندازہ ہے کہ 2023ء کے بعد ان کی مسلم ممالک کی سربراہی داؤ پہ ہے- 24 جولائی 1923 ء کو لوزان سوئٹزر لینڈ کا  سو سالہ امن معاہدہ  اگلے چند برسوں میں ترکی کے بندھے ہاتھ کھول دے گا ۔

خلافت کی دوبارہ اٹھتی آوازوں اور ترکی کے ابھی سے اس طرف بڑھائے قدم آج کے اسلامی سربراہوں کے لئے فکر کا باعث ہیں۔ پاکستان کا بھی منہ موڑ جانا ان کی سربراہی خطرے میں ڈال دے گا۔ وزیر اعظم نے ملائیشیا نہ جانے کے دباؤ کا بر ملآ اظہار کیا تھا اور پاکستان کی جس تیل سے مدد اور جس کرنسی سے معاشی ساکھ کو سہارا دیا گیا ہے وہ تیل روک لیا گیا ہے اور پیسوں کا تقاضا سب یہی کچھ ہے کہ کسی طرح سے یہ دباؤ اتنا بڑھایا جائے کہ پاکستان اس دباؤ کے سامنے پھر سے جھک جائے اور ان کی سر بلندی کے لئے کام کرتا رہے۔

وہ بھارت کو علاقے کا حاکم مان لے تا کہ چین کی سی پیک  سے سمندروں تک متبادل رسائی اسے پھر ان  جنوبی تجارتی راستوں پہ لے آئے جن کی بدولت اسے قابو کیا جا سکتا ہے- اسلامی ریاستوں میں کام کرنے والے پاکستانی  اپنے لئے آج کے حالات مشکل پاتے ہیں جہاں پہ آنے والے دنوں میں ان کے لئے رہائشی ویزوں کا حصول دشوار کر دیا جائے گا اور کام کے لئے جانے والوں کارستہ روک دیا جائے گا۔

پہلے سے موجود پاکستانی مزدوروں کے درمیان یہ افواہ بھی گرم ہے کہ انہیں اب  ان ریاستوں سے نکال باہر کیا جائے گا۔ وہ رشتے جن پہ کبھی اخوت اور بھائی چارے کی مہریں لگائی جاتی تھیں آج انہیں ضرورتوں سے باندھ کے ہتھیاروں کا کام لیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے حالیہ انٹروویوز  جن میں انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے متعلق اپنے موقف کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا ہے  اور اسے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی دور بینی  سے نتھی کیا ہے وہ ہی یقینا" پاکستان کا موقف ہے ۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ان غیر عجمی اسلامی ممالک کو اسرائیل کو ماننے کا جواز مل جائے گا  جس پہ وزیر اعظم صاحب نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور ساتھ ساتھ  اسلامی ممالک کی سربراہی کا ہما بھی پورے طمطراق سے ان کے سر سجا رہے گا۔ وگرنہ ترکی ۔ قطر۔پاکستان ۔ ملائیشیا اور ایران کی صورت  بنتا اتحاد کس  کی شہنشاہی کو لے ڈوبے یہ بھی کل کے خطرات میں سے ایک خطرہ ہے-  اسی لئے پانی کے بہاؤ کے مخالف پانی کو گدلا کر دینے  کا الزام ہم پہ لگایا جا رہا ہے کہ کل فیٹف کی بندھی  ہماری کلائیوں کی رسیاں کھل نہ سکیں۔

  ہمارے سفارت کار  غلام دستگیر  صاحب نے جب اپنا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کی تو اسی لئے انہیں سنا ان سنا کر دیا گیا۔ روس اور چین کی طرف سے  جو بائیڈن کے انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد  دینے کے بعد سے ٹرمپ صاحب کی الٹی سیدھی قلابازیوں کا بھی  حالات کو اس نہج پہ پہنچا دینے  میں ہاتھ ہے۔ ایران پہ حملہ ہو یا  افغانستاں اور عراق سے تیز تر فوجی انخلاء – یا پھر گڑے مردے اکھاڑنے کی چالیں  سب کل کے حالات اور وگدی ندی کے بہاؤ کا تعین  اور ہمواری  پہ اپنے اثرات چھوڑ جانے کی سعی ہے – وگدی ندی کے بہاؤ کے ساتھ سفر تو آسان ہے لیکن کیا کل کی بھی حکمت عملی یہی ہے کہ آنے والی نسلوں کو گروی رکھ کے آگے بڑھا جائے یا کہ مخالف سمت کا سفر کرکے خود انحصاری کے مواقع ڈھونڈے جائیں۔

میں کوئی علم نجوم میں طاق نہیں ہوں لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آج اپنی آزادی اور خود انحصاری کا سفر ہمیں ضرور مستحکم کرے گا ۔ وگدی اس ندی میں ہمیں اپنی منزلوں کا تعین کل کو سامنے رکھ کے کرنا ہے – آج کے فیصلے ہماری فیٹف کی زنجیروں اور فلسطین و کشمیر  کی آزادی پہ  کل ضرور اثرانداز ہوں گے اورآج  کی واپسی وہی ہو گی کہ جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ سو پیاز کھا کے اب ہم جوتے کھانے کو پھر سے تیار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :