بے نور سی نرگس

جمعرات 21 جنوری 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

چمن  میں خود کو دیدہ ور کہنے والے حقیقت میں بے نور نرگس کی صورت نمو پا  رہے ہیں- کسی طرف بھی  جونظر دوڑائی جائے ایک اجڑے چمن کی داستانیں رقم ہیں- چور چور کے نعرے لگانے والوں میں یہ صدا بلند کرنے والا سارے چوروں میں اپنی پہچان کھو بیٹھا ہے اور در حقیقت اسی مجمع کا حصہ ہے جس میں چوروں کو بقا ہے-   ایک آہ ہےکوئی دامن تو صاف ہو۔

وہ جن کو صادق و امین کے سرٹیفکیٹ تو ملےہیں لیکن اس گھمسان میں وہ بھی چور سے زیادہ قصور وار دکھائی دیتے ہیں- ہر ذی شعور یہ کہتا نظر آتا ہے کہ
قوم کے درد ان کی آہوں میں
آپ شامل ہیں سب گناہوں میں
وزیراعظم صاحب !آپ کی ناک کے نیچے ہوتا سب کچھ کہاں دلیل ہے اس بصیرت کی جس کے آپ دعوےدار ہیں  - مگر بے نور نرگس کیا جانے- امید تھی اگلی نسل تک حالات سنبھل جائیں گے لیکن شاید اس کے لئے بھی آپ نے ا ن کا مستقبل کسی مافیا کے سپرد کر دیا ہے جو ایسے ایسے قوانین اور ترامیم لا رہا ہے کہ خدا کی پناہ- جس طرح میرٹ کا جنازہ نکلتے ہم نے دیکھا  ہےکہ وہ ادارے جو اعلیٰ افسران کی تعیناتی کے ذمہ دار تھے کیسے لٹیرے نکلے۔

(جاری ہے)

انٹرویوز کے نام پہ عہدیداران بکتے سب نے دیکھے۔ اقرباء پروری کی تند موجوں میں حق دار ڈوبتے دیکھے۔ پیپرز لیک ہوتے اور نئے چاند چڑھتے دیکھے- اگر میں اس سال سرکاری میڈیکل کالجز کی نشستوں پہ نظر دوڑاؤں تو  وہ کمی بھی غریب کے بچوں کو کھل رہی ہے- اکیڈمیوں کے نام پہ دھندا تو سب پہ آشکار تھا ۔ اس پہ ظلم یہ کہ امراء اور صاحب حیثیت تو ان اکیڈمیوں کے شکر گزار نظر آئے کہ جن کو آنے والا پیپر کسی نہ کسی طرح مل گیا لیکن ایک غریب کہاں ان اکیڈمیوں میں بچوں کو پڑھائے اور اپنے بچے کی بھی آنے والے امتحان میں پرچوں تک رسائی کو ممکن بنائے- روپے پیسے سے اپنے بچوں کو میڈیکل کالج بھیجنے والوں کی دسترس سے جو نشستیں بچ جاتی تھیں وہ بھی شاید اتنی ہی ہوں گی جتنی کہ کم کر دی گئی ہیں ۔

اس پہ ستم یہ کہ کچھ وردی والے کالجوں کی نشستیں بڑھ گئی ہیں کہ آؤ  دولت کے چمتکار دکھاؤ جو گلشن کا کاروبار چلے- پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو دیے جانے والے بیس نمبر اب شاید رقوم کے حصول میں ممد و معاون بھی ثابت ہوں گے اور قسمتوں کے فیصلے بھی لکھیں گے- پرائیویٹ میڈیکل کالجز اپنی فیسوں میں یوں خود مختار ہیں کہ ایک چیک  اینڈ بیلنس کی زنجیر سے آزاد ہوئے من مانی کریں گے- اس ملک میں نظام تو کرپشن کا ہے لیکن لائی گئی اصلاحات ان ممالک کی اندھی تقلید ہیں جہاں کرپشن کا گراف بہت ہی نچلی سطح پر ہے- اس ملک میں تو ان کا راج ہے جن پہ بیرونی فنڈنگ کے الزامات ہیں – کبھی ان کے لئے پانامہ ہے اور کبھی ان کے لئے براڈ شیٹ ہے لیکن ایک غریب کے لئے تو مہنگائی ہی کی چارج شیٹ ہے جو اسے روز پکڑا دی جاتی ہے- یوں تو میرا ملک اسلامی جمہوریہ ہے جس کا قومی مذہب اسلام ہے لیکن حاکموں پہ یہودیت کی مہر لگانے والے نہ جانے کہاں سے مذہب کی اسناد پیدا کر رہے ہیں اور بانٹ رہے ہیں-  دین کے ان  چراغوں  کواپنی کرپشن چھپانے کے لئے سڑکوں چوراہوں پہ کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں وہ بھی تو ڈھکا چھپا نہیں ہے- صبح سے شام تک چور چور کے نعرے ہیں اور ان نعروں میں پس رہی ہے عوام- بابو ہے کہ ان نعروں کی اوڑھ میں  ملکی قانون کو بدلتا وہ کچوکے لگا رہا ہے جو غربت کی ستائی قوم کے حصے میں روزانہ کی بنیاد پر آ رہے ہیں۔

مجھے بھی کوئی ایسا قانون بتایا جائے جو امیر کے لئے بنا ہو – یہاں کی یہ سب کی اصلاحات  جینے کے ہاتھوں مرتے اس انسان کے لئے ہیں جو صبح سے شام تک  زندگی کی ڈور باندھے رکھنے میں ہاتھ پاؤں مارتا اب رحم رحم کی دہائیاں دے رہا ہے- جس ملک میں تعلیم  سب سے زیادہ پھلنے پھولنے والا کاروبار ہو وہاں جب  شرح خواندگی میں کمی کی  باتیں کی جاتی ہیں تو کتنی مضحکہ خیز لگتی ہیں- ہاں یہ ملک جس کے بنے اسکول  مویشیوں کے  باندھے جانے کی جگہ ہوں اور کلاسیں قبرستانوں میں لگیں وہاں پہ  ان قبرستانوں کے پڑھے بچوں پہ ان کے مستقبل کو تاریک کرنا اور سرکاری میڈیکل کالجز کی نشستیں کم کرنا کچھ یوں ہی ہے کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ بھاڑ میں جاؤ تم یہ نظام کل بھی  صاحب کی لونڈی تھا اور آج بھی ہے جہاں ایک غریب کے لئے صرف وہ زندگی ہے جس میں آگے بڑھنے کے سب رستے بند اور تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں- اسے بس وہی کولہو کا بیل بن کے زندہ رہنا ہے جس کا اس کی پیدائش پہ ہی اس  سے وعدہ  کیا گیاتھا- ہاں اگر ملک میں ڈاکٹرز بہت زیادہ ہیں تو سب سے پہلے ان پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے دروازے بند کیجئے جن میں ہوتا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے- جب ان اداروں  میں نشستوں کی کمی بھی آپ کا من چاہا  منصوبہ مکمل نہ کر سکیں  تو کم کر دیجیئے سرکاری میڈیکل کالجز کی نشستیں- مگر یہاں تو الٹا ہی نطام ہے – یہاں پر تو  بارہ طیارے زمین پہ رکھ کے اس طیارے کو ہوا میں بلند کرنے کا نظام ہے جس  کے بیرون ملک پکڑے جانے پہ جگ ہنسائی ہی بہترین گورنس  کے وہ اعزازات  ہیں جو ایک پاکستانی کے ہم گلے میں لٹکائے دنیا میں سرفراز و ممتاز ہیں- یہ ملک تو ایک آزاد ملک کے طور پہ  وجود میں آیا تھا لیکن اس کے چمن میں ہمیشہ بے نور نرگس کا ہی بسیرا رہا ہے ۔

اس اجڑے دیار میں نہ کوئی عندلیب ہے اور نہ ہی شاید کوئی دیدہ ور جو  غربتوں میں مرجھائے گلوں کو نویدِ بہار دے سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :