گارنٹیاں

پیر 28 جون 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

رب کی رضا اور اس کی منشا ایک افسانہ بنتی جا رہی ہے ۔ ہر کسی کو ہر چیز  پہ ہر قسم کی گارنٹی چاہیئے ۔ اک زمانہ تھا ضروریات زندگی پہ وارنٹی ، گارنٹی تھی یا یہ گارنٹی عامل بابا یا کسی بنگالی بابا سے منسوب تھی مگر اب تو ہر قدم پر ہر کوئی  اک نئی ہی گارنٹی چاہتا ہے ۔ کوشش سے پہلے کامیابی کی گارنٹی ۔ کاروبار میں سرمایہ کاری سے پہلے منافع کی گارنٹی ۔

علاج سے پہلے شفا کی گارنٹی ۔ امتحانات سے پہلے پاس ہونے کی گارنٹی ۔ اس گارنٹی کے ہم ہی نہیں اب تو ادارے اور عدالتیں بھی داعی ہیں ۔ موت کے پنجے سے  کس کو رہائی ہے ۔موت کا وقت اور مقام مقرر ہے  جب کہ  زندگی  بھی اس سے بے خبر رکھی گئی ہے مگر  پھر بھی یہاں زندگیوں کی گارنٹی مانگتے جب اپنے سیاسی راہنما دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کہیں یہ کارخانہ قدرت میں کار ربی  کی رضا اور منشا میں مداخلت تو نہیں ۔

(جاری ہے)


اگر میرے ملک کی تاریخ کھنگالی جائے تو یہ آشکار ہوگا  کہ میاں صاحبان  اس گارنٹی کے ہمیشہ سے ہی شیدائی رہے ہیں  اور انہیں یہ گارنٹیاں ہمیشہ ملتی  بھی رہی ہیں ۔ہر لمحہ ، ہر لحظہ گارنٹیوں سے استفادہ کرتے میاں صاحب جنہوں نے زندگی میں یہی سیکھا ہے کہ بھجوایا بریف کیس اگر قبول کر لیا جائے تو تب ہی فیصلہ حق میں آنے کی گارنٹی ملتی ہے۔

  مرحوم بڑے میاں صاحب کی نصیحت سدا بھائیوں کے لئے مشعل راہ رہی ہے کہ جب تک پیسے جیب میں ڈال نہ دیے جائیں اور رکھ نہ لئے جائیں تب تک گارنٹی کو بھی گارنٹی حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ گارنٹی مشکوک ہے ۔ اس پہ عمل  ہی پھر میاں صاحبان  کاشعار رہا ہے ۔ اگر گارنٹی نہیں تو یاد داشت بھی نہیں جیسے نیب کے سامنے چھوٹے میاں صاحب کو عمر  کی زیادتی کی وجہ سے آج کل سب کچھ بھولا ہوا ہے لیکن اگر  انہیں کچھ یاد ہے تو وہ دھیلا ہے جس کی کبھی بھی انہوں نے کرپشن  نہیں کی۔

میاں صاحب کے سپوت تو ان اربوں روپے کے متعلق نہیں جانتے جو کہ ان کی مصروفیت کے دنوں میں نہ جانے کون کون  ان کے بینک  اکاؤنٹس میں ڈالتا رہا ہے- ویسے تو پنجاب کی ساری تقرری ان کی نگرانی میں ہوتی تھی ۔ بڑے میاں صاحب نے جونیجو کی مسلم لیگ پہ قبضہ کیا تو انہیں شہید ضیاء الحق کی گارنٹی حاصل تھی ۔ نوے کی دہائی میں عام انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا تھا۔

ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار پہ لازم تھا کہ اس کے ذمہ کوئی بھی حکومتی واجبات نہ ہوں۔ اس موقع پر میاں برادران شاید مالیاتی بینکوں کے سب سے بڑےباقی دار تھے- دونوں کے پاس انتخابات لڑنے کی گارنٹی تھی۔ اس لئے ہائیکورٹ جا پہنچے محترم و مکرم جسٹس صاحب نے نہ  صرف انہیں انتخابات لڑنے کی اجازت تھی بلکہ سنہری فیصلے میں تحریر بھی فرمایا کہ یہ ریلیف ان دو ہستیوں کے لئے ہی ہے ۔

اس فیصلے کو عام تام لوگوں کے کیسز میں ریفرنس کے طور پر نہ لیا جائے- میاں صاحب نے بے نظیر بھٹو کے خلاف  پہلی دفعہ جنرل مرحوم حمید گل صاحب کی گارنٹی استعمال کی۔  دوسری باری آئی تو صدر پاکستان جناب مرحوم فاروق لغاری صاحب ان کے گارنٹر تھے۔ لیکن یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے جب تک گارنٹی رہی میاں صاحب کی محبت رہی ۔ گارنٹی کا تحفظ گیا رشتہ گیا جیسے کے اب میاں صاٖحب نہ منہ بولے بیٹے ہیں اور نہ ہی حمید گل اور ان کے ادارے سے  کوئی تعلق رکھتے ہیں۔


وقت ضرور بدلتا رہا ہے اور بدلتی شام  و سحر میں گارنٹی کی سہولت لیکن سدا میاں صاحب نے اپنی بغل میں رکھی ہےلندن میں جائیداد خریدنے کی باری آئی تو قطری خط کی گارنٹی تھی۔ پرویز مشرف سے ڈیل کی تو رفیق الحریری کی گارنٹی تھی۔ موجودہ دور میں اس کی بار لندن پدھارے تو پلیٹلٹس کی گارنٹی تھی ۔ اب وطن واپسی کی بات ہوئی تو ایک بار پھر بیٹی کو باپ کی چلتی سانسوں کی گارنٹی چاہیئے  کہ اگر کوئی گارنٹی دے تو  شام کو ہی وہ میاں صاحب کو لندن سے بلوا سکتی ہیں۔

سب سمجھ آتا ہے لیکن اس دفعہ کس سے گارنٹی کی وہ  خواہاں ہیں یہ ذرا  دھندلا ہے اگر اسے بھی وہ صاف الفاظ میں کہہ دیں کیونکہ اس سے پہلے جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے زندگی کی  گارنٹی مانگی تھی تو ان کا مخاطب وہ حکومت تھی جو ان کے رستوں میں روڑے اٹکائے ہوئے اربوں کی گارنٹی چاہتی تھی مگر میاں صاحب جنہوں نے ساری عمر کیمپ آفس بنا کے ٹیکس کے پیسوں کی نہاریاں کھائی ہیں کس طرح یہ اربوں کا حلف نامہ دے سکتے تھے سو پچاس روپے کے بیانِ حلفی پہ بھائی کی گارنٹی پہ بھائی کے ساتھ ہی  باہر گئے- اب جب کہ گارنٹی دینے والے ذرا منہ موڑے بیٹھے ہیں تو انہیں منانے کے لئے کبھی روٹھ کے طعنوں پہ اتر آتے ہیں غصہ دکھاتے ہیں تو کبھی ایکسٹینشن کے معاملے میں پیار سے مناتے ہیں۔

اس روٹھنے منانے کے کھیل میں کبھی اپنے ایلچی گھنٹوں ملاقات کو بھیجتے ہیں تو کبھی اعلان کر دیتے ہیں کہ اب بات نہیں ہوگی۔ بیٹی تو برملاء کہتی ہے کہ اس روٹھنے منانے سے حکومت کی گارنٹی ضرور نکلے گی۔ اس گارنٹی کے لئے تو چھوٹے میاں صاحب کسی کے گھٹنے بھی پکڑنے کو تیار ہیں - وہ ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ اگر گردن پہ نہ ہوں تو گھٹنوں پر ضرور ہوتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزا کے خلاف دائر اپیل مسترد ہونا کیا ایک اور گارنٹی کی طرف ایک اشارہ ہے یہ بات آج کل زیر بحث ہے کیونکہ اس فیصلے میں وطن واپسی پر اپیل کی گارنٹی موجود ہے اور جس پہ وقت کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ ویسے بھی گارنٹیوں میں وقت کی حدود بندی کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ ماضی میں ریٹائرڈ چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری صاحب ٹائم بار ہوئی اپیلیں سن بھی چکے ہیں اور انہیں سر خرو بھی کر چکے ہیں  اور  یہ ریلیف  ویسے بھی ہردور میں  میاں صاحب کو  ہی حاصل تھا اور حاصل ہے۔

تاریخ گوا ہ ہے کہ دنیا کی کوئی جیل ایسی نہیں ہے جو میاں صاحب کو قید رکھ سکے اور دنیا میں کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے کہ جو میاں صاحب کو گارنٹی نہ دے سکے ویسے بھی میاں صاحب ان صابر لوگوں میں سے ہیں جو وقت یا شخص ساز گار نہ ہونے کی صورت میں سرور محل یا لندن کے ویرانوں میں وطن کی محبت میں روتے  گھڑ سواری  سے دل بہلاتے اگلی گارنٹی تک وقت بتا سکتے ہیں اور ان مشکلات میں  وہ رستے بنا سکتے ہیں جو انہیں کامرانیوں کی ضمانتیں دے سکیں۔ وہ جانتے ہیں کہ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :