شہید عزیمت شیخ عبدالعزیز عزیز کی برسی ۔اور ہماری ذمہ داریاں

بدھ 11 اگست 2021

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

اداس فضاؤں میں اپنوں اور غیروں سے گھا ئل ایک سسکتی ہو ئی روح پکا ر اٹھی کہ وقت اور حالات کتنے بے رحم ہیں کی اکیسویں صدی میں بھی حق و انصاف کے مقابلے میں بے حس و متعصب عالمی طاقتوں کی بنیاد پر عالمی ادارے کی ضمانت کے با وجودکشمیر میں ظالم ونا انصافی کا راج جاری ہے۔اسلئے پر عظم ایما نی و حریت جزبے سے سر شارنہتے کشمیری سر پر کفن با ندھ کر دنیا کی سب سے طویل تحریک میں حصول آزادی کیلئے جد جہد میں دہائیوں سے مصروف ہیں، حصول آزادی کشمیر کی تحریک میں فدا کاری اور جا نثاری کی بے مثا ل اور تا ریخی داستا ن عشق و خون رقم کر نے والے کشمیری تا ریخ میں اپنا نام تسلسل سے سنہری حروف میں لکھ رہے ہیں، موجودہ مزاحمتی تحریک میں ایک مہینے سے زیادہ کر فیو کے سایہ میں بھاری ظلم و جبر و قہرکے باوجود ہر کشمیری سیسہ پلائی دیوار بن کرعمل سے ثابت کر رہا ہے،
چلا ہوں کفر سے لڑنے جلا کر کشتیا ں سا ری
پلٹ کر راستوں سے میں کبھی وا پس نہ جا ؤں گا
مرے جذبوں کی حدت سے پگھل جا ئیں گی زنجیریں
یہ با زی جیت کر میں سا ری دنیا کو دکھا ؤں گا
 2008اور2011کی پر امن احتجاجی مظاہروں کو دبا نے کیلئے بھی بھارت نے نہتے کشمیریوں کے خلاف بھر پور طاقت کا استعمال کیا،اور لاکھوں خاندان متاثر ہو ئے، سینکروں جوان شہید اور ہزاروں زخمی۔

(جاری ہے)

ہمارے ہر دلعزیز ہیرو برہان کی شہادت کے بعد موجودہ مزاحمتی تحریک میں ان دونوں مراحل کی تحاریک سے استفادہ لینا وقت کی ضرورت ہے۔ تسلسل سے نہتے پر امن جہد پر یقین رکھنے والے۔۔۔ کشمیری لگاتار مر رہے ہیں ، کشمیری ماؤں بہنوں کی عزت تار تار ہو رہی ہے، کشمیری گمنام ہو رہے ہیں، بینائی سے محروم ہو رہے ہیں، اپاہج ہو رہے ہیں، گھروں سے بے گھر کیا جارہا ہے۔

۔۔اور پر امن احتجاج کر نے والوں کے خلاف بھر پور طاقت کا استعمال کر کے قتل عام کیا جارہا ہے۔ ۔۔ ہمیں سوچنا ہے اور نئی راہیں تلاش کر نی ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں کہ چھ لاکھ نہتے کشمیریوں کی شہادت کے بعد ہمیں آج بھی قسمیں کھانی پڑتی ہیں کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ آزادی پسند ہیں۔ ٹیپو سلطان، سبھاش چندر بھوس، بھگت سنگھ،اور باقی مسلح جد جہد پر یقین رکھنے والوں کی بنیاد پر گاندھی جی کی عدم تشدد تحریک اور قائد اعظم محمد علی جناح  کی قانونی جہد مسلسل کے بارے میں کبھی شکوک و شبہات کا ابہام نہیں تھا۔

اسلئے کشمیریوں کے مخلص وکیل اور اہم فریق پاکستان کے ارباب اختیار ، اپوزشن ، تمام سیاسی و دینی تنظیموں اور ہر سیکشن کی ذمہ داریاں وسیع ہیں۔بھارتی ظلم وجبر و قہر کے شکار کشمیری پر امن جدجہد میں ہر ستم اس بنیاد پر سہہ رہے ہیں کہ اقوام عالم کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمی داریاں نبھائے گا۔لہذا پاکستان کو سفارتی سچح پر اپنے تمام صلاحتوں کو بروئے کار لا نا ہے۔


 نیک جذبے اور نیک نیتی سے آزادی کی تلاش میں نئی سیاسی راہوں کو چن لیا ۔ ایسے جان نثاروں میں تحریک آزدی کے دیرینہ کارکن اور شر یف النفس قر بانی کے پیکر سینئر حریت لیڈر شیخ عبد العزیز بھی ایک ہیں، جن کو 11اگست 2008 میں نام نہاد خونی لکیر روندنے کے کارواں کی قیادیت کر تے ہوئے بھارتی فوجیوں نے شہید کر کے جنت، ہمارے دلوں اور تاریخ کشمیر میں امر بنایا، جنکی برسی آج آر پار منائی جاری ہے،اورشہید عزیمت شیخ عزیز سمیت تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے، اور یہ تجدید عہد کیا جارہا ہے کہ منزل حاصل کر نے تک جد جہد جاری رہے گی انشا ء اللہ۔

۔شیخ عبدالعزیز، سید علی گیلانی، غلام محمد خان سوپوری جیسے ۔۔۔۔ تحریک آزادی کشمیر کے ان روح روان میں سے ہیں جو مصروف عمل ان ایام میں رہے جب سقوط ڈھا کہ اور پا کستا ن کی سیا سی افراتفری کو بنیا د بنا کربھا رت کشمیر یوں کو ما یو سیوں سے مفا ہمت کر نے کیلئے ہر حر بہ آزما رہا تھا چونکہ کشمیر یوں نے شیخ عبدالله کے زیر سایہ محا ذ رائے شما ری کو بھا رت سے نجا ت دہندہ قرار دیکر اس کی تا ئید و حما یت میں بے مثال قربا نیا ں دیکر جو خواب تمنا ؤں کے سا تھ دیکھا تھا 1975ء کے اندرھا عبدالله اکارڈ سے چکنا چور ہو چکا تھا ، ہمارے ان سینئر قائدین نے ان ایام میں تحریک کی آبیاری کی جب اندرھا عبداللہ بیعنامہ امرتسر کے نئے ایڈشن پردستخط ہو ئے تو بھارت نے دنیا کو یہ فریب دینے کی کو شش کی کہ کشمیری اپنے مطالبہ آزادی سے دستبردار ہو چکے ہیں۔


شیخ عبدالعزیزکے ارادے کبھی متنزل نہیں ہو ئے،شیخ کا آدرش وطن کی آزادی اور آزادی کی جد جہد میں جان کا نظرانہ پیش کر نا تھا۔ اس الله کے بندے نے جو کہا تھا گر دن کٹ سکتی ہے جھک نہیں سکتی،سچ کر کے دکھا یا۔مو جو دہ تنا ظر میں ہم سب کیلئے مشعل را ہ ہے ۔شیخ عزیز نے اپنے مقدس لہو سے کشمیر یوں کیلئے ایک نئی راہ کھو لنی تھی کہ وہ اپنے بل بو تے پر قائم تحریک آزادی کی جد جہد کے ہر پہلو میں بھر پور شرکت سے بھا رتی سا مراج کو نکا ل سکتے ہیں ، لہذاان تمام گلی کو چوں میں موجودہ تحریک کی آبیاری کر نے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کر نی ہے بلکہ رہنمائی کے ساتھ ساتھ انکو تحریک آزادی میں مصروف عمل تنظیموں میں اعلی ٰ مقام دلانا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ مکار و چالاک بھارت ماضی میں ہماری لاپر وائی کی بنیاد پر آزادی کے ایسے چندپروانوں کوورغلانے میں کامیاب ہوا،لہذامسلمہ اور ہر دلعزیز قیادت سمیت آر پار تمام مخلص قائدین نئی نسل میں منتقل تحریک میں نئی قیادت کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں، آرپار صرف محدود دائروں میں قیدچندنادان، جو دوسروں کی حوصلہ افزائی کر نے میں بخل سے کام لے رہے ہیں، مخلص قیادت کی پیروی کر تے ہو ئے تحریکی مفادات کو مدنظر رکھکر زمہ داریوں کا بوجھ ہر ایک کے کندحے پر ڈالیں،اسلئے کہ بھارت نے ہماری غفلت کی بنیاد پر ماضی میں مزاحمتی تحریکوں کے روح رواں خصوصا چند مشہور سنگ بازوں کو پولیس آفیسر بنا دیا۔

تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے متحدہ حریت قیادت کے احکامات اور پروگرام قابل ستائش ہیں ،مخلص حریت قائدین جانتے ہیں کہ مکار بھارت ہماری کو تاہیوں اور کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتا، ۔ مکاربھارت کشمیر میں ہر سیکشن کے بااثر لوگوں سے تعلقات استوار کر نے کیلئے لالچ سمیت ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ آفاقی اور زمینی تباہ کاریوں کے پیچھے بھارت کی سازشیں ہیں، یہاں تک کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ایک تحقیقی مضمون سے احقر نے ثابت کیا تھاکہ ان تباہ کاریون کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہے، اسکے باوجود ان تباہ کاریوں کے بعدبھارت نے کئی لوگوں کو ور غلانے کیلئے ایک حقیر رقم کی پیشکش کی، ان ایام میں مجھ سے کچھ نئی پود کے صف اول آزادی کے پروانوں نے مشورہ مانگا، میں نے سب کو بھارت کی ان چالوں سے خبر دار رہنے کی تلقین کی۔

بر ہان کی شہادت کے بعد ایک مہینے سے زیادہ کرفیو کے سایہ میں تمام ظلم و جبرکے حربوں کو آززما کربھارتی ظلم و جبر اور قہرکے باوجود کشمیریوں کے عطم و ہمت اور حوصلہ نے بھارتی ایوانوں میں ہلچل مچادی ہے ،بھارت چانکیائی منصوبوں پر عمل کر کے اپنے ایجنٹوں اور سیاسی سودا گروں کی وسالت سے پھر وہی پرانی چالیں آزما رہا ہے مگر کشمیریوں نے ماضی کی کو تاہیوں سے سبق حاصل کیا ہے۔

یہ جدوجہد اب ہم سب کے ہیرو بر ہان کی شہادت کے بعد آگ اور خون کے دریا عبور کر کے منظم عوامی تحریک کی بنیاد پر نہایت ہی اہم، نازک اور فیصلہ کُن موڑ میں داخل ہو چکی ہے۔ تحریکِ آزادی کے ایسے نازک مرحلے میں ضروری ہے کہ معاملات و حالات کو بگاڑنے کی بجائے مِل جُل کر سبھی کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت پیدا کرنی ہے جو علاقائی یکجہتی، نظریاتی استحکام، اخوت، انصاف اور اتحاد کے قابلِ یقین ضمانت دینے کے علاوہ ہر خطرے کی بُو سونگھ لینے اور اس کا دفاع کرنے کا انقلابی شعور بھی عطاء کرتا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :