حکمران اور اپوزیشن کا جمہوری کردار

جمعرات 28 مارچ 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے قوم کی شعور کی آنکھ دورِ ذوالفقار علی بھٹو میں کھلی عوام جان گئی کہ جمہوریت کیا ہے اور جمہوریت میں عوام ،حکمران اور اپوزیشن کا کردار کیا ہے کسی بھی قوم میں حکمرانی کیلئے جمہوریت بہترین حکمرانی ہے لیکن جمہوریت کے حسن کیلئے عوامی نمائندوں کا شعوری حسن بھی ضروری ہے۔ انتخابات میں عوام اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں اپنی پسند کے اُمیدوار کو ووٹ د یتے ہیں جنہیں قومی اور صوبائی اسمبلی میں قوم اور عوام کو درپیش مسائل کے حل اور قانون سازی کیلئے کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔


 جمہوریت میں قانون سازی ہوتی ہے حکمران حکمرانی کرتے ہیں اور اپوزیشن حکمران کے اُن اقدامات پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو قوم مفاد میں ہو یا نہ ہو اور اس کردار میں اپوزیشن اور حکمران قوم کے سامنے ایک آئینہ ہوتے ہیں عوام انہیں دیکھتی اور سوچتی ہے۔

(جاری ہے)

دنیا اُنہیں قومی کردار میں دیکھتی ہے اس لیے کہ اسمبلیوں میں تشریف فرما منتخب اراکین اسمبلی شخصیت وکردار کے حوالے سے اپنے حلقہ انتخاب میں انسانی اور مذہبی قدروں کی شان ہوتے ہیں ۔

عوام کا مان ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کو مذاق بنادیا گیا ہے اور اس کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو کے دوسرے دور میں پاکستان کے علماء کرام نے گلے میں قرآن لٹکا کرکی ،جوکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اقدار کی توہین تھی۔ جس سے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری قدروں کے خلاف اپوزیشن کی غیر جمہوری قدروں کو تقویت ملی جو آج ہم بھگت رہے ہیں ۔

دورِ حاضر کی حکمرانی میں اپوزیشن کا کردار انتہائی گھٹیااور گھناؤنا ہے۔ موجودہ اپوزیشن وہ ہے جو گزشتہ 35سال سے باری کے حکمران تھے اور حکمران وہ ہے جو پہلی بار حکمران ہے حکمران کیسا ہے اس کی حکمرانی کیسی ہے وہ بھی دنیا دیکھ رہی ہے اور جو اپوزیشن ہے اُسے بھی اُس کے کردار میں قوم دیکھ رہی ہے ۔
قومی اور صوبائی اسمبلیاں اکھاڑے بن چکے ہیں اکھاڑے میں تو پہلوان تہذیب کے دائرے میں کشتی لڑتے ہیں لیکن اسمبلیوں میں قدوقامت اور شخصیات میں قابل قدر اراکین اسمبلی ایسے دست وگریبان ہیں ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جو نہ صرف توہین آمیز ہے بلکہ باعث ِشرم بھی ہے لیکن شرم تو اُس کو آتی ہے جو تہذیب او رشرم کے قریب سے گزرا ہواسمبلیوں سے باہر اپوزیشن قیادت کے درباری TVٹاکروں میں بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ ان کا تو گریبان تک نہیں اگر گریبان ہے تو جھانکتے نہیں اس لیے کہ درباری ہیں یہ درباری اور میڈیا کے اینکر پرسن قوم اور عوام کیلئے نہیں بولتے ہیں ، بولتے ہیں تو اُن کیلئے جو سپریم کورٹ میں اور دوسری قومی عدالتوں میں بحیثیت مجرم پیش ہورہے ہیں یا اپنے قومی جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

 درباری اور میڈیا پرسن نہ تو پاکستان کو سوچتے ہیں نہ قومی اداروں کو،نہ افواجِ پاکستان کو ۔موجودہ حکمرانی سے قبل کے حکمرانوں پر الزام تھا کہ وہ مغربی قوتوں کے کٹھ پتلی تھے ۔موجودہ حکمران پر کٹھ پتلی کا الزام ہے لیکن الزام لگانے والے بزدل ہیں نام نہیں لیتے کہ کس کی کٹھ پتلی حکمرانی ہے۔ لیکن قوم تو جانتی ہے حکمران بھی جانتے ہیں ،عدالت بھی اور افواجِ پاکستان بھی جانتی ہے ۔

موجودہ حکمران پر الزام ہے کہ اُس کے وزراء کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ہے اس لیے اُن تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی لیکن سوال ہے کہ اُن کے دورِحکمرانی میں اُن کے وزراء کا تعلق تو کالعدم تنظیموں سے نہیں تھا ۔جس کارروائی کا مطالبہ وہ عمران خان سے کر رہے ہیں اپنی دورِ حکمرانی میں کیوں نہ کر سکے ۔ در اصل سیاست دان قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور باشعور قوم ان کرداروں پر ہنستی اور ان کا مذاق اُڑاتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :