عمران خان دھرنے سے وزارتِ اعظمیٰ تک

منگل 2 اپریل 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان کی حکمرانی کے خلاف عمران خان جو اپنی ذات میں پاکستان اور پاکستان کی عوام کیلئے انتہائی مخلص ہیں باری کے حکمرانوں کے خلاف میدانِ سیاست میں خودپرست سیاستدانوں کے ظلم وجبر کے پاؤں تلے کچلی عوام کیساتھ نکلے تو عوام نے عمران خان کو اپنا نجات دہندہ جان لیا اور عمران خان پاکستان کی عوام کی آواز بن گئے۔


عمران خان نے 35سالہ دورِ حکمرانی کے علمبرداروں کے خلاف پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں دھرنا دیا۔پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین دھرنے میں کئی رنگ دیکھے گئے۔حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن دنیا دیکھ رہی تھی پاکستانی عوام خصوصاً پاکستان کانوجوان عمران خان کیساتھ کھڑاہوگیا۔

(جاری ہے)

عمران خان کی تاریخی جدوجہد میں دنیانے وہ تصویر دیکھ لی جب ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل محمد ایوب خان کی حکمرانی کے خلاف میدانِ سیاست میں اْترے۔

راولپنڈی سے لاہور تک روڈ مارچ اور عوامی جلسوں میں دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان کی عوام کا شعور جاگ گیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی مثالی اور تاریخی جدوجہد میں عوام نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا عوامی چہرہ دیکھا ،پاکستان میں جمہوری نظام دیکھا ،عوام نے اپنی حکمرانی دیکھی لیکن بدنصیب عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوی حکمرانی میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری اپنے دماغ کو اپنے ہی ضمیر کیساتھ سْلادیا بے ضمیروں کے دماغ سے عوام دشمنی کی سوچ سوچنے لگے اور ایشیاء کے عظیم لیڈر کو تختہ دار تک پہنچاکر خود ظلم وجبر اور ڈکٹیٹروں کی حکمرانی میں خوبصورت پاکستان کی خوبصورت تصویر کھوگئے حکمرانی اْن خود پرستوں کے سپرد کر دی وہ عوام کو وعدے کھلانے لگے اور خود لوٹ مار میں لگ گئے یہی وجہ ہے کہ عوام کی نظر میں اپنی قیادت کا احترام ختم ہوا صرف درباری ساتھ رہ گئے۔

وہ تبدیلی چاہتے تھے اور عمران خان کی صورت میں انہیں نجات دہندہ نظر آیا سوچا چلو اس کو بھی آزمالیتے ہیں۔اْس کے گرد جمع ہوگئے اور عمران خان نے عوامی طاقت سے ایک ہی بال پر پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن ،مولانا فضل الرحمان اور اْن کے درباریوں کی وکٹیں اْڑادیں اور دھرنے سے اْٹھ کر وزارتِ اعظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے۔
عوام کی اس بے وفائی پر 35سالہ دورِحکمرانی کی عیاش قیادت اور اْن کے حواری درباریوں کے ہوش اْڑگئے۔

کبھی سوچا بھی نہیں تھا عوام کو حالانکہ ذوالفقارعلی بھٹو نے بہت پہلے کہا تھا طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔شاہی محلات میں اسلام آباد کے ایوانوں میں شاہی زندگی گزارنے والو ں کو کب گوارہ تھا کہ وہ حکمرانی سے بھی جائیں اور اپنے دورِحکمرانی کاحساب بھی دینا پڑجائے اس لیے وہ تمام شکست خوردہ ایک ساتھ بیٹھ جو ایک دوسرے کی امامت میں خدا کے حضور سجدہ ریز تک نہیں ہوتے۔

انتخابی مہم کے دوران عوامی اجتماعات میں انہوں نے ایک دوسرے کی ماں بہن کو گالی نہیں دی لیکن ایک دوسرے پر گھناؤنے الزامات لگا کر خود ہی ایک دوسرے کو بے نقاب کر دیا۔
سعدی نے کیا خوب کہا کہ ”اپنے اندر کی بات اپنے قریبی دوست کو بھی نہ بتاؤ اس لیے کہ اْس کے آپ سے بھی قریبی دوست ہوں گے“
عوام نے ان کی زبانی ایک دوسرے کے خلاف وہ کچھ سنا جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

شکست خوردہ اسلام آباد سے دوری برداشت نہ کر سکے اور ایک ساتھ بیٹھ گئے ہاتھ ملائے گلے لگے اور کل کو بھول کر آنے والے کل میں عوام اور پاکستان کے خلاف ایک ہوگئے ۔حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے 8ماہ کی حکمرانی میں وہ کون سا جرم کیا ہے جو اپوزیشن کیلئے ناقابل برداشت ہے جمہوریت میں اپوزیشن کے عظیم کردار کو بھول گئے ،اداروں کی شان اور افواجِ پاکستان کو بھول گئے اگر کچھ یاد ہے تو صرف اپنی ذات اور گزرا ہوا دورِحکمرانی۔

اپنی لوٹ مار کرپشن ،ظلم وبربریت۔اپوزیشن تو اپنا کل تک بھول گئی ہے لیکن عوام تو نہیں بھولی ،پوری قوم جانتی ہے کہ اپوزیشن اپنے آنے والے کل سے خوفزدہ ہے اگر ان کے دامن بے داغ ہیں تو عدالتو ں کا سامنا کریں۔عدالتوں اور قانون کا احترام کریں اپنے خلاف مقدمات کے فیصلے کا انتظار کریں لیکن اتنی توفیق کہاں۔خودپرستی میں اندھوں نے پاکستان کی عوام کا سکون برباد کر دیا ہے اسمبلیاں اکھاڑے بن گئے ہیں ۔

TVٹاکرے درباری اینکروں اور درباری نمائندوں کیلئے وقف ہوگئے۔
 سوچاجائے اور سوچنا چاہیے کہ قصور کس کا ہے۔قصور اْن بے روزگاروں کا ہے ، بغیر تنخواہ کے سیاسی مزدورو ں کا ہے جن کا اپنا دماغ ہے لیکن سوچتے خودپرست قیادت کے دماغ سے ہیں شعور اور عقل کے اند ھے پاکستان کے خلاف ،قومی اداروں کے خلاف ،عدالتوں کے خلاف، افواجِ پاکستان کے خلاف عدالتوں میں پیشی پربھی اْن کو اپنے کندھے دے رہے ہیں۔

مجرم کی چند روزہ رہائی پر خوشی سے سڑکوں پر سجدے کر رہے ہیں۔ٹرین مارچ میں ٹرین کیساتھ دوڑرہے ہیں کیا ہی بہتر ہوتا اپوزیشن کی قیادت سال دوسال تبدیلی کے دعویدار عمران خان کی حکمرانی کو دے دیتے۔پرامن اور پرسکون حکمرانی کیلئے اپوزیشن بھی دیکھتی ،عوامی بھی سوچتی اگر تبدیلی کے دعویدار قومی اورعوامی اعتماد پر پورا نہ اْترتے تو انجام وہی ہوتا جو آج اپوزیشن کا ہے۔
کاش! پاکستان کی عوام اور سیاستدان پاکستان میں اپنی آزادی کو سوچتے لیکن بدقسمتی سے اللہ رب العزت نے پاکستان میں ہمیں سب کچھ تو دیا لیکن وہ سوچ نہیں دی وہ قیادت نہیں دہ جن کی حکمرانی میں پاکستان خوبصورت نظر آئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :