اپوزیشن،تحریک انصاف،واشنگ پاؤڈراور مولانا فضل الرحمان

جمعہ 12 اپریل 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

مولانا فضل الرحمان پھر بے چین ہوگئے ۔عوامی عدالت میں عبرتناک شکست کے باوجود اُنہیں اپنا گریبان دیکھنے کا موقع نہیں ۔عبرتناک شکست کے بعد اپوزیشن اتحاد کی ایک بھرپور کوشش کر چکے ہیں ۔ اپوزیشن مولانا فضل الرحمان کا درد جانتے ہیں لیکن اُس کا علاج اپوزیشن کے پاس نہیں بلکہ حلقہ انتخاب کے اُن ووٹروں کے پاس ہے جنہوں نے انہیں مسترد کر دیا۔


مولاناصاحب!اپنی سبکی پر کچھ عرصہ خاموش رہے لیکن بے چینی کہاں چین سے جینے دیتی ہے پھر نکلے ہیں عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے اُن علماء کرام اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کیساتھ جو دورانِ حج منیٰ میں قیام کے دوران ایک دوسرے کی امامت میں رب کریم حضور سجدہ تک نہیں کرتے لیکن جب بات تخت ِاقتدار اسلام آباد کی آتی ہے تو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

آج کل مولانا صاحب!کبھی زرداری کے درپر اور کبھی میاں نواز شریف کے درپر اپنے ایجنڈے کو اُٹھائے سجدہ ریز ہیں لیکن میاں صاحب اور زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ دورِحکمرانی میں مولانا کا قومی اور مذہبی کردار کیا ہوتا ہے اس لیے دیکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی خودغرضی کی دال اس بار بھی گلتی ہے یا نہیں ۔
پیپلز پارتی کی شہلہ رضا نے TVٹاکر ے میں تحریک انصاف کو بڑا خوبصورت نام دیا تحریک انصاف واشنگ پاؤڈر !!کہتی ہیں تحریک انصاف کی لانڈری میں دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے تمام ممبران ڈرائی کلین ہوگئے ۔

کہا تو شہلہ ر ضا نے درست ہے اس لیے کہ تحریک انصاف کے بنیادی ممبران کو تو عام انتخابات میں گھاس نہیں ڈالی گئی جو بھی جہاں سے اُڑ کر آیا، یا جہانگیر ترین اُڑا کر لایا تحریک انصاف کی رنگین پٹی گردن سے لپیٹ کر محب ِوطن اور عوام دوست ہوگیا وہ کل اپنے کردار میں کیا تھا عمران خان نے نظر اندا زکر دیا ،جو دوسری جماعتوں میں فقیر تھاعمران خان کا وزیر بن گیا ۔

 دھرنے سے الیکشن تک عمران خان سے پاکستان کی عوام نے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں حکمرانی میں دم توڑگئیں فلحال تو وہ منصوبے ہی بنارہے ہیں اور وہ داغ دھونے کی کوشش کر رہے ہیں جو گزشتہ 35سال کی دورِحکمرانی میں پاکستان کے دامن پر لگے کچھ وقت لگے گا ۔دھرنے سے وزارتِ اعظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہونا اُس کا کارنا مہ ضرور ہے لیکن عمران خان نے قوم کو زبان دی ہے قوم منتظر ہے اور وہ اپوزیشن کے خلاف اکھاڑے میں گنڈاسہ اُٹھائے کھڑے ہیں للکاررہے ہیں نہیں چھوڑوں گا کسی کو نہیں چھوڑوں گا لیکن قوم تو اپنی حالت بدلے جانے کی منتظر ہے اس لیے کہ قومی خوشحالی کے وعدے تو عمران خان کی حکمرانی سے پہلے بھی ہوا کرتے تھے ، عمران کا وعدہ تو تبدیلی کا تھا جو نظر نہیں آرہی پہلے اقتدار کے حصول کیلئے وعدے کرتے رہے اب اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر قوم کو وعدوں میں سبز باغ دکھارہے ہیں ۔

کرسی تک جدوجہد کے دوران عمران خان نے کہا تھامیری کابینہ مختصر ہوگی میری کابینہ عیاش نہیں ہوگی ۔وزراء اپنی گاڑیوں میں فرائض انجام دیں گے لیکن قوم دیکھ رہی ہے عمران خان کی کابینہ کی فوج اورآئے روز نئی بھرتی کا سلسلہ بھی جاری ہے پنجاب میں اُن کے لاڈلے وزیر اعلیٰ نے پہلے تنخواہیں بڑھائیں اور اب گاڑیاں لے رہے ہیں ۔جانے عمران کی کفایت شعاری کا وعدہ کہاں گیا رہی بات اپوزیشن کی تو پوری اپوزیشن عدالت کے کٹہرے میں کھڑی سراپا احتجاج ہے اپوزیشن کے کچھ لیڈر اندر ہیں اور کچھ اندرجانے والے ہیں اپوزیشن قیادت کے جولاڈلے تھے وہ اپنے کل کی فکر میں خاموش قیادت کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے چند ایک درباری بول رہے ہیں ، اپوزیشن جماعتوں کی قیادت اپنے دورِ حکمرانی میں قومی اداروں کے خلاف بولنے کی تاریخ رقم کر چکے ہیں اور ادارے اپوزیشن ممبران اور قیادت کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جتنی چادر ہو پاؤں اس قدر ہی پھیلاؤ پاؤں زیادہ پھیلاؤ گے تو کبھی پاؤں ننگے ہوں گے اور کبھی سر !! لیکن اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کو سمجھ نہیں آرہی لیکن زبان کی بے لگامی تو بھگتنی ہے ۔

ہاں اگر قوم یہ سوچ رہی ہے کہ حکمران اور ادارے جو کچھ جن کے خلاف کر رہے ہیں وہ انجام تک بھی پہنچائیں گے یہ کم از کم قوم کی غلط فہمی ہے یہ حکمران اور اپوزیشن کا ایک سٹیج ڈرامہ ہے ان سب بڑوں کا کچھ نہیں بگڑے گا بگڑے گا تو اُن محنت کش عوام کا جو دن بھرکی مزدوری میں کما کر شام کو اپنے بچوں میں بیٹھ کر کھاتے ہیں ۔یہ وہ نعرے لگانے والے بے تنخواہ کے سیاسی مزدور ہیں جو قیادت سے اپنی محبت میں نعرے لگاتے ہیں ۔

پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہیں براہِ راست گولیوں کی برسات میں خون بہاتے ہیں جان سے جاتے ہیں اور وقت آنے پر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا وہ ہی منظر ہم آج اپنے دیس میں دیکھ رہے ہیں حکمران اور اپوزیشن آپس میں دست وگریبان ہیں اور عوام پریشان ہے لیکن یہ پاکستان کی عوام کیلئے کوئی نئی بات نہیں وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کی حکمرانی سے قبل کی دورِحکمرانی میں کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جو عمران خان کی حکمرانی میں خشک ہوگئی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :