طاقت کا سر چشمہ عوام کے ووٹ کو عزت دے دی گئی

جمعرات 9 جنوری 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں مسلح افواج کی مدت ِملازمت سے متعلق قوانین میں ترامیم کے بل کثرت ِرائے سے پاس ہوگئے ۔تحریک انصاف کی حکمرانی میں پہلی بار قانون کے حوالے سے قومی اسمبلی کا وقار بلند ہوا عدلیہ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے محافظ افواجِ پاکستان سے متعلق قانون پر منتخب قومی نمائندوں کو بڑے امتحان میں ڈالا تھا وطن دشمن قوتوں کا خیال تھا کہ پی پی ،مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی وزیر اعظم سے ذاتی اختلاف میں افواجِ پاکستان سے متعلق قانون سازی میں تعاون نہیں کریں گے لیکن اُن کے خواب ادھورے رہے گئے ۔

چھوٹی سوچ کے لوگ ایسے فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن بڑی سوچ کے بڑے لوگ ایسے فیصلوں پر فیصلہ کرنے والوں کو خر اجِ تحسین پیش کیا کرتے ہیں
 پی پی اور مسلم لیگ ن نے ذاتی اختلافات نظرانداز کرکے پاکستان اور افواجِ پاکستان سے اپنی بھرپور محبت کا مظاہرہ کرکے آرمی ایکٹ ترامیم کی غیرمشروط حمایت کرکے جنوری 2020ء میں تاریخ رقم کردی ۔

(جاری ہے)

قومی رہنماؤں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں،ہماری شہہ رگ کٹ چکی ہے امریکہ اسرائیل اور برطانیہ کی شہہ پر ہندو پرست بھارت کا دہشت گرد مودی سرحد پر سر اٹھائے کھڑا ہے ایسے حالات میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے طاقت کا سر چشمہ عوام کے ووٹ کو عزت دے کر دنیا پر ثابت کر دیا کہ ہم زندہ قوم ہیں
سپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں آرمی ایکٹ 1952ء،پاک فضائیہ ایکٹ1953ء اور پاک بحریہ ایکٹ1961ء کے تین بل پیش ہوئے۔

اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے بل کی غیر مشروط حمایت کی البتہ جمعیت العلمائے پاکستان ،فاٹا کے دومنتخب اراکین اسمبلی اور جماعت اسلامی نے بل کی مخالفت کی اور اسمبلی سے واک آؤٹ کرگئے ۔آرمی ایکٹ کثرت ِرائے سے منظور ہو گیا لیکن جمعیت العلمائے پاکستان کے مولانا فضل الرحمان ،جماعت ِ اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور اُن کے ہمنواؤں نے ثابت کردیا کہ وہ سیاست میں ذاتیات کے قائل ہیں اگر قوم کے بہترین مفاد میں متذکرہ خود پرست شکست خوردہ رہنما بل کی حمایت کرجاتے تو یقینا قومی اسمبلی میں قانون سے متعلق ایک تاریخ ساز دن ہوتا لیکن جو اپنی ذات کے حصار میں ہوتے ہیں وہ قوم اور قومیت کو نہیں سوچتے!قومی استحکام اور تعمیر وترقی کیلئے حالات کے تقاضے پر یوٹرن لیناجرم نہیں لیکن اپنی ذات کے گردگھو منے وا لے ذات کے حصار سے باہر نہیں نکلتے، قوم نے یقینا تسلیم کیا ہوگا کہ جن خودپرستوں کو عام انتخابات میں طاقت کا سرچشمہ عوام نے ووٹ کی طاقت سے مسترد کردیا تھا وہ فیصلہ غلط نہیں تھا اس لیے کہ یہ لوگ ذات اور اقرباپروری کے جوہڑ میں شعوری طور ڈوب چکے ہیں ۔


قومی اسمبلی میں کثرت ِرائے سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری میں قومی اسمبلی کا وقار بلند ہوا ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ثابت کردیا کہ دونوں بڑی قومی سیاسی جماعتوں کی سوچ مثبت ہے البتہ میڈیا کے اینکر اور سوشل میڈیا کے فلاسفر پریشان ہیں اس لیے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے تھے جو سوچ رہے تھے ویسا نہیں ہوا لیکن اب حکمران جماعت کے ہاتھ چھوڑبے لگام وزیروں اور مشیروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ اگرقومی مفاد میں اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں نے قوم پرستی اور وطن دوستی کا مظاہرہ کیا تو یہ پارلیمنٹ اور عوام کی جیت ہے اور اس جیت کے احترام کو وزیر اعظم پاکستان کو بھی سوچنا ہوگا سیاسی اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن قومی نمائندوں کی توہین ،عوام کے ووٹ کی توہین ہے طاقت کی سرچشمہ عوام کے ووٹ کو حکمران جماعت کی حکمرانی میں عزت ملی ہے تو وزیر اعظم کو اپنی آرڈیننس فیکٹری بند کرکے قومی معاملات اور قانون سازی کیلئے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے اس لیے کہ قومی اتحاد وقت کی ضرورت ہے ہمیں اپنی قومی سرحدوں سے باہر کے نہیں
وطن عزیز کے اندر قومی دشمنوں کے خلاف اگر جنگ لڑنی ہے تو اس کیلئے حکمران جماعت او رافواجِ پاکستان کے شانے پر اپوزیشن کے اعتماد کے ہاتھ کا ہونا ضروری
ہے قومی اداروں ،میڈیا ،عوام اور عدلیہ کو ایک پیج پر ہونا لازم ہے اور ایک پیج پر کھڑے ہو کر جب پاکستان کو سوچیں گے تو قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی ایسی ہی تالیاں بجیں گی تالیوں کی یہ گونج دشمن پاکستان کو خوشحال پاکستان کی عوام کا پیغام ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :