وہ دور گیا جب خلیل خان فاختے اڑایا کرتے تھے!!

منگل 28 جنوری 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

ہم پاکستانی بھی کمال کے پاکستانی ہیں ،پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کا اگر کہیں کہ تمہارا کان کتا لے گیا ہے تو ہم اپنا کان دیکھے بغیر کتے کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں ،خود کو سوچتے ہیں نہ اپنی قوم کے خوبصورتی کے دشمنوں کو سوچتے ہیں جانتے ہیں کہ پاکستان تحر یکِ انصاف کی حکمرانی کو دو سرا سال ہے حکومت گرانے کے دعویدار وں کو بھی آرام آ گیا ہے اس لئے کہ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کہتے ہیں قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے معیشت کی صورتِ حال پہلے سے بہتر ہے ضرورت ہے تو قومی اعتماد اور اتحاد کی قومی استحکام کی اگر پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کی ہم پاکستانی قوم سر ا ٹھا کر جئیں تو کچھ صبر کریں ۔

حکومت گرانے کا خواب دیکھنے والی قوتیں دم تھوڑنے والی ہیں پاکستان علامہ اقبال اور قائدِاعظم کے خوابوں کی تعبیر میں ان شاء اللہ دنیائے اسلام کا قلعہ ہوگا!
پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو نے مغربی قوتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہا تھا،ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ۔

(جاری ہے)

جن مشکلات کا ذولفقار علی بھٹو کو سامنا تھا ان ہی مشکلات کا موجودہ حکومت کو بھی سامنا ہے لیکن وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان گھبرائے ہوئے نظر نہیں آتے اور اس کا ثبوت منظور پشتین کی گرفتاری ہے ۔

پشتون قوم کے نام نہاد علمبردار پشتون تحفظ مومنٹ کے مغربی ایجنٹ ہیں ایم کیو ایم کی بربادی کے بعد دوسرے الطاف حسین منظور پشتین نے سر اٹھایاتھا جسے انتہائی اطمینان سے دودھ سے بال کی طرح نکال کرگرفتاری کے بعد جیل بھیج دیا گیا ہے گرفتاری سے قبل پشتین کو آزاد میں سے غائب کیا گیا پاکستان کے خلاف اس کی آواز بند ہوگئی ۔ مغربی کاسہ لیس بھی بے خبر رہے عین ممکن ہے کہ پشتین کو جیل کی اس کوٹھری میں بند کردیا جائے گا جس میں مولانا خادم حسین رضوی کو رکھا گیا تھا اگر ایسا کیا گیا تو منظور پشتین کی عقل بھی ٹھکانے لگ جائے گی آزاد میڈیا بھی پریشان ہے کہ آ خر عمران خان کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگی ہے آخر وہ کو ن سی قوت ہے جس کی بنیاد پرعمران خان کی حکمرانی کا تاج محل کھڑا ہے
قوم بھی بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کی آزاد میڈیا سابق حکمرانوں کی نمک حلالی میں استحکامِ پاکستان اور استحکامِ جمہوریت کو نظر انداز کرکے حقائق کے برعکس بیانات سے قوم کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش میں ہے !ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان سی پی آئی 2019کی رپورٹ پر ٹی اے پی کے چیئر مین سہیل ظفر کہتے ہیں کہ پاکستان کے سیاستدان،میڈیا اورقومی اخبارات سی پی آئی کی رپورٹ کو غلط طور پر پیش کر کے پاکستان کی قومی ساکھ کو نقصان پہچا رہے ہیں اس رپورٹ کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے بلکہ پہلے دو برسوں کی نسبت موجودہ سکورایک درجے بہتر ہے ۔

لیکن آزاد میڈیا اور اپوزیشن کو اس سچائی سے کیا غرض جھوٹ کو ہوا دینا ہے اور وہ دے رہے ہیں ۔ آزاد میڈیا کی سوچ اس وقت پریشان ہو گئی جب وزیرِ اعظم نے کے پی کے میں اپنی صوبائی حکومت کے خلاف سازش کرنے والے اپنے قریب ترین دوستوں کو وزارتوں سے فارغ کر دیا ۔ ایم کیو ایم اس وقت پریشان ہوگئی جب عمران خان وزیرِ اعلیٰ سندھ کے ساتھ بیٹھ گئے اور ان کی بات مان لی آئی جی سندھ تبدیل ہو گئے آ زاد میڈیا کو دھچکا ضرورلگا ہو گا اس لئے کہ وزیرِ اعظم وہ ہی کچھ کر رہے ہیں جو ان کی ابتدائی سوچ ہے!
قوم دیکھ رہی ہے کہ عمران خان اپنی حکمرانی کے راستے میں اپوزیشن اور میڈیا کے بچائے ہوئے کانٹوں پر سے پشاوری چپل پہن کر نہایت اطمینان سے مسکراتے ہوئے گذر جاتے ہیں ۔

مہنگائی کا رونا رونے والے اور ذخیرہ اندوز باوجود کوشش کے حکمران جماعت کو پریشان نہ کر سکے ان کو اپنی دال گلتی نظر نہیں آتی میڈیا کی خوش فہمی بھی دور ہوتی جارہی ہے سب پرانی تنخواہ پر کام کا سوچنے پر مجبو ہورہے ہیں ،مسلم لیگ ن برطانیہ کی گود میں ہے ،پنجاب ،کے پی کے اور بلوچستان حکومت میں تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کی بولتی بند ہو تی جارہی ہے ۔ مسلم لیگ ن کی مریم اورنگ زیب اکیلی بول رہی ہے ،فردوس عاشق اعوان ان کو اہمیت نہیں دے رہی ہے ، بے چینوں کو چین آرہا ہے اس لئے کہ وہ جان گئے ہیں کہ وہ دور گیا جب خلیل خان فاختے اڑایا کرتے تھے!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :