عمران خان کے ہاتھ میں آخری اوور کے لئے گیند آ چکی ہے

جمعہ 10 اپریل 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

بعض اوقات سیاسی کلابازیوں اور سیاسی منظرناموں کو دیکھتے سو چتے خیالات کے بے لگام گھوڑے عجب سی سوچ سوچنے پر مجبور کر دیا کرتے ہیں ضروری نہیں کہ جو میں سوچ رہا ہوں قاری بھی وہ ہی کچھ سوچ رہا ہو لیکن اگر ہم سوچیں تو اس میں برائی بھی کیا ہے !
آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ریاست کے خوبصورت اور تابناک مستقبل کے لئے مشکل ترین گھڑی میں ریاست کے ہر شہری کو اہم کردار ادا کرنا ہےکورونا وائرس کی وبائی صورتِ حال میں ترقی یافتہ ممالک بھی بے بس ہو چکے ہیں قو می وبائی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں بحثیت قوم مضبو ط ہو کر آگے بڑھنا ہے ہر شہری کو اپنے دیس کے لئے متحرک ہونا ہو گاحکومت ہر ممکن وسائل بروئے کار لا رہی ہے!
 سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے رہا کئے ہوئے قید ی دوبارہ گرفتا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیرِ سماعت مقدمات کے قیدیوں کی ضمانت کے لئے درخواستوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا (اس کا مطلب ہے معاشرہ پہلے ہی پریشان ہے اور پریشان نہیں کیا جا سکتا)۔

(جاری ہے)

خواتین بچے اور۵۵ سال سے زیادہ عمر کے قیدی اور مجرمانہ ریکارڈ نہ رکھنے والے رہائی کے مستحق ہو سکتے ہیں سپریم کورٹ نےکہاکہ حکو مت کووبائی صورت حال میں کامیابی کے لئے مزید محنت کرنا ہو گی ©!
 قومی سطح کی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ریاست میں استحکام کے لئے حکو مت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھادیا ہے وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ مشکل کی اس گھڑی میں و فاق کے ساتھ کھڑ ے ہو گئے ہیں، اپوزیشن کو حکو مت کے خلاف متحرک رکھنے والا ماسٹر مائینڈ مولانا فضل الرحمان اپنے مدرسے اور رضاکار حکومت کے انتظام میں دینے کا اعلان کر چکے ہیں اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی قیادت کی خاموشی بھی ایک سوال ہے البتہ قومی سیاست میں واحد خود پرست مسلم لیگ ن کی قیادت قرنطینہ میں حکومت پر لفظوں کی گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کے گیت نگار جیو نیوز کے میر شکیل الرحمان بھی جیل میں ہیں
 قومی سطح پر عوام مسلم لیگ کو سوچنے لگی ہے کہ آج کے ہنگا می حالات میں بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کے سر سے عمرانی بخار نہیں اترا تو ظاہر ہے کے مسلم لیگ ن ذاتی مفادات اور عمران خان کی ذات سے عداوت کے حصار سے نہیں نکل سکتی اس لئے محب وطن قوم اور ادارے مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل کو سو چنے لگے ہیںجب کہ وزیرِ اعظم عمران خان پہلے کی نسبت کچھ زیادہ متحرک ہیں قوم سے کئے ہوئے وعدے پہ وعدے پورے کئے جا رہا ہے کنسٹرکشن کمنیوں اور سرمایا داروں سے کہہ رہے ہیں، تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے میں نہیں پو چھوں گا لیکن مکان بناﺅ!
 وزیرِ اعظم کے یارِ غار جہانگیر تر ین اور خسرو بختیار کی قربانی نے تو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ واقعی کچھ ہونے والا اس لئے کہ وزیرِ اعظم قومی اسمبلی میں قانو ن ساز ی کی پوز یشن میں نہیں اپوزیش ذا تی مفادات کا بل پاس کروا کے تالیاں بجا تی ہے اور قوم کے اجتماعی مفاد کے بل کی کاپیاں پھاڑ کر ڈیسک بجاتے ہیں شورمچا کر ایوان کو مچھلی منڈی بنا دیتے ہیں اس لئے لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت اپنے اقتدار کو داﺅ پر لگانے جارہی ہے
 اپوزیشن تو خلائی مخلوق سے بخوبی واقف ہے، شہباز شریف سے متعلق فواد چوہدری کہہ چکے ہیں میاں صاحب کو پاکستان لانے کے لئے بڑی محنت کرنا پڑی ہے ۔

میاں شہباز شریف کی نیلسن منڈیلہ دوم ہونے کی غلط فہمی بھی دور ہو گئی ہے وہ تشریف لائے لیکن ائیر پورٹ پر ان کے استقبا ل کے کون کون تھے وہ بھی قوم نے دیکھ لیا ہے لگتا ہے میاں صاحب کے ساتھ بھی مولانا فضل الرحمان کی طرح کسی خاص وعدے میں ہاتھ ہو گیا مجھے میرے کسی دوست نے بتایا تھا ممکن ہے عمران خان حکمر انی میں استحکام کے لئے میاں صاحب کو وسطی پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنا دیں ممکن ہے میاں صاحب کو ایسا ہی کوئی خواب دکھایا گیا ہو لیکن تعبیر بدصورت دیکھی تو قرنطینہ میں بیٹھ کر اپنے درباریوں کے ہاتھ میں کمانیں دے کر بقول مریم اورنگ زیب کے نالائق وزیرِ اعظم پر تنقید سے بھرے لفظوں کے تیر ب برسانےپر لگا دیا ہے اورقو می اد ارے ان کی ان اداﺅں کا جائزہ لے رہے ہیںجہا ں تک میں سوچ رہا ہوں ممکن غلط سوچ رہا ہوں لیکن کوئی بات نہیں میں کونسا کسی ایوارڈ کے لئے کچھ لکھ رہا ہوںعمران خان کے اپنے یارِ غار نے اپنے یار کےلئے اپنی وزارت کی قربانی دے کر قومی چینی چوروں ذخیرہ اندوزوں قومی لٹیروں کے خلاف کاروائی کے لئے راستہ صاف کر دیا ہو،، تاکہ مریم اورنگ زیب اور شاہد خاقان عباسی پریس کانفرنس سجا کر یہ مطالبہ نہ کریں کے پہلے جہانگیر ترن اور خسرو بختیا کے خلاف کاروائی کرو۔

ہم یہ تو جانتے ہیں کہ بہت کچھ پانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کھونا پڑتا ہے تحریکِ انصاف کے آرگنائیزر کو بھی تو قوم نے سنا ہوگا کہ ممکن ہے چینی کے کارخانے قومی تحویل میں لے کر گنے کے کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کے سا تھ قوم کو چینی کے بحران سے ہمیشہ کے لئے نجات د لائی جائے اور اگر واقعی ایسا کچھ ہو گیا ،شوگر ملوں کو قومی تحویل میں لیا گیا یا ان کے لئے کوئی خاص آرڈینس جاری ہوگیا تو قومی سطح کے چینی چوروں اور تین سیاسی جماعتوں۔

مسلم لیگ،ن ،، مسلم لیگ، ق اور پیپلز پارٹی کی مالی طورپرکمر ٹوٹ جائے گی جو غریب کی غربت کا رونا رو روکر غریب ہی کا خون چو س رہے ہیں
تحریکِ انصاف کے کچھ ذمہ حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ عمراں خان نے اسمبلیاں توڑنے کی سمری اوپر بھجوا کر اپنی حکمرانی بھی داﺅ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لئے کہ جب تک قانوں سازی نہیں ہوگی پاکستان عوامی طاقت کے ساتھ آگے نہیں بڑ ھ سکے گا!
 الغرض مسلم لیگ ن کی سیاست کو ووٹ کی طاقت سے ہمیشہ کےلئے قومی سیاسی قبرستا ن میں دفن کرنے کی تیاری کی خبروں سے لگتا ہے عمران خان کے ہاتھ میں آخری اوور کے لئے گیند آ چکی ہے لیکن ایمپائر کے اشارے کا انتظار ہے اس لئے کہ فضا کو رونا وائرس کی وجہ سے دھند آلود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :