لیکن ہم لکھنے والے بھی تو پاکستانی ہیں

جمعہ 4 جون 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

جنگ گرو پ نے حامد میر کو اپنے چینل سے آف ایئر کر دیا کہنے کو تو جنگ گروپ الف سے ی تک حکومت ِ وقت سے ذاتی د شمنی میں ریاست اور ریاستی اداروں کی عزت اچھال رہا ہوتا ہے لیکن عام تاثر ہے کہ حامد کے پر نکل آئے ہیں۔ ایسوں کے ساتھ ا یسا ہو جائے تو ان کے پیاروں کو تکلیف بڑی ہوتی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح حامد میر کو گو لی لگی تھی ان کو آف ایئر کر دینا بھی ڈرامہ ہو
قلم کے گھوڑے پر سوار ہم ایسے لوگ خود کو بڑا عزت دار سمجھتے ہیں لیکن وہ ریاست سے محبت کرنے والوں کی نظر میں قابل نفرت ہوا کرتے ہیں۔

حرف عام میں ہم اہلِ قلم کے منہ میں لفافے کی زبان ہوتی ہے۔میاں محمد نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدرکے حوالے سے شوشل میڈیا اس خبر کی دھوم ہے ، کہتے ہیں حامد میر نے فوج کے بارے میں جو کہا کوئی صحافی تو ایسی ہمت کر ہی نہیں سکتا وارث میر کو سلام کرتا ہوں جس کے گھر میں ایسے ببر شیر نے جنم لیا میں سمجھتا ہوں عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے
سوشل میڈیا کے ایک فلاسفر نے بھی کیا خوب لکھا۔

(جاری ہے)

لکھتا ہے یا تو حامد میر جیسے صحافیوں کے وجود بلٹ پروف ہیں اور یا آئی ایس آئی کی گولیاں پلاسٹک کی ہیںیہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ حامد میر او ر جنگ گروپ کے درمیان اندرونِ خانہ حالات ساگا ر نہ ہوں اور اس کے بیان کو سامنے رکھ کر اپنے نمبر بنائے ہوں اس لئے کہ وہ ذاتی مفاد کے لئے جنگ گروپ کی ساکھ کو دا ﺅ پر لگائے ہوئے تھے
 صحافت ایک معتبر اور معزز پیشہ ہے لیکن یہ مقدس پیشہ ہم جیسے حامد میروں اور سیلم صافیوں کی وجہ سے اپنا مقام کھو چکا ہے ، ریاست اور ریاستی اد اروں کے خلاف زبان درازی پر توہم ایسوں کو حکومت ِ ایران کی طرح ہفتوں میں لٹکا دینا چاہیے حامد میر پر الزام ہے کہ اس نے صحافت کی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے ریاستی ادارے پر بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی کہاں کی صحافت ہے پاکستان میں تو ان لفافہ پرستوں نے اظہار ِ رائے کی آزادی کا تماشہ لگا رکھا ہے میرا جسم میری مرضی کے عملی مظاہرے میںٹی وی سکر ین پر قوم کی بیٹیوں کے وجود کی نمائش مختصر لباس میں تو د نیادیکھ ر ہی ہے ،
 صاحبانِ بصیرت تو اس وقت جان گئے تھے جب تیس صحافیوں کی جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی اس ملاقات میں جو باتیں ہوئیں اس سے اندازہ ہو گیا تھا کہ حامد میر کو اپنی زبان درازی کے خمیازے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

ریاستی اداروں سے بلا جواز پنگا لینے کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے اس لئے یہ پیغام ہے دور ِ حاضر کے لفافہ پرست اہلِ قلم کو کہ جب جان پر بنتی ہے تو پھر ساتھ دینے والے صرف مذمت تک ہیں محدود رہتے ہیں
حامد میر پر پابندی سے متعلق پی ایف یو جے کو سوال بھی احمکانہ ہے کہتے ہیں ہم جاننا چاہیں گے کہ یہ پا پندی کس نے لگائی ہے کیا وہ نہیں جانتے کہ کسی نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اوراس کی ٹیم کیا ہو گی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں۔

تمام ادارے آئین کے تحت اپنی پالیسی بنانے کے خود ذمہ دار ہیں۔‘
یاد ر ہے کہ صحافی اور یوٹیوب ولاگر اسد طور پر ان کے گھر میں گھس کر تشدد کے بعد ان کی حمایت میں حامد میر نے ریاستی اداروں کو تنبیہ کی تھی کہ آئندہ کسی صحافی پر ایسے تشدد نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ 'گھر کی باتیں بتانے پر مجبور ہوں گے۔' حامد میر نے اسد طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دشمن سمجھتا ہے کہ میرا پتانہیں چلے گا۔

اگر سوچا جائے تو حامد میر بھی غلط نہیں کہتے ۔حامد میر کی یہ بات اس صورت میں قا بل قبول ہوتی اگر وہ کسی خاص ادارے کو نشانہ نہ بناتے لیکن وہ صحافت کے بانس پر بیٹھے ضرورت سے زیادہ کہہ گئے جاوید لطیف کی طرح درباری اور نمک خاری میں اگر کوئی خود کو بھول جائے تو اس کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے لیکن پاکستان میں نہیں !! پاکستان میں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بولنے والوں کو اگر لٹکا دیا جاتا تو جاوید لطیف اورحامد میر پیدا نہیں ہوتے
لیکن بد قسمتی سے ہمارے پاکستان میں ایسوں کے کیس لٹکا دیئے جاتے ہیں جانے یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیںکہ الزامات سے ملکی تشخص کو بین الا قوامی سطح پرکس قد ر نقصان ہو تاہے دوسری طرف ر یاستی ادارے اگر خود پر لگے الزام سے انکار کرتے ہیں تو ا وہ اپنے دامن پر لگے داغ کو دھو کیوں نہیں لئے ، حامد میر، ابصار عا لم اور اسد طور پر حملہ آور اگر ریاستی ادارہ نہیں تو کون ہے ایسے مجرموں کی پشت پناہی سے اداروں پر الزامات کو تقویت ملتی ہے ، وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہل قلم کو تحفظ دیں لیکن اگر وہ تحفظ دینے میں ناکام ہے تو جن کے زخموں سے خون رستا ہے وہ خاموش بھی تو نہیں ر ہ سکتے ، ریاستی اداروں پر انگلی اٹھانا اگر جرم ہے تو اداروں کو بھی خود کو تماشہ نہیں بنانا چاہیے ، صفائیوں اور گواہیوں سے کچھ نہیں بنے گا اگر کچھ لوگوں کے خیال میں یہ سب کچھ ڈرامہ ہے تو ڈرامہ کے کردار کیوں پوشیدہ ہیں ا دارے ہمارے لئے قابل احترام ہیں لیکن ہم لکھنے والے بھی تو پاکستانی ہیں !!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :