اس سے بھی برے وقت کا سوچو جاناں

جمعہ 5 نومبر 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

عمران خان دشمنی میں قومی اور مذہبی عظمت داﺅ پر لگانے والے کالعدم تحریک لبیک کے علم بردارمیدان کیا سوچ کر آئے تھے اور کیا حاصل کیا۔ان کی دال نہیں گلی مذہب کی آڑ میں فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے نکالنے کا ڈرامہ فلاپ ہوگیا نہ تو سفارت خانہ بند ہوا اور نہ سفیر ملک بدر ہو ا ، سفارت خانے اور سفیر سے متعلق فیصلہ پار لیمنٹ میں ہوگا ، پارلیمنٹ میں منتخب عوامی نمائندے شعوری طور پر مغربی غلام ہیں۔

تحریک کے قائد سعد رضوی کو بھی عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا البتہ کالعدم تحریک ِ لبیک کے نام کے ساتھ لگا ” لاحقہ کالعدم “کو کا لعدم قرار د لوانے میں ضرور کامیاب ہوگئے ، تحریک لبیک کا واسطہ اس کپتان سے پڑا ہے جس کے شانے پر بقول اپوزیشن کے خلائی مخلوق کا ہاتھ ہے جسے سیاسی نا بالغ نالائق کہتے ہیں
 کالعدم تحریک لبیک کے مار چ اور دھرنے میںتخت اسلام کی حفاظت کے لئے سرکار کے چند ملازم قربانی دے کر اپنے ادارے اور خاندان کی پہچان بن گئے لیکن تحریک لبیک کے لئے سر پر کفن باندھے جو نکلے تھے جو قیادت سے محبت میں قیادت پر قربان ہو گئے ۔

(جاری ہے)

ان کی قربانی رائیگاں گئی۔ اب ان کے سوگواروں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا یہ عمل اور اپر رد عمل کوئی نہیں بات نہیں لیکن مدرسوں میں پڑھنے والے صرف وہ کچھ جانتے ہیں جو انہیں بتایا اور سکھایا جاتا ہے!
صاحب نظر اور دور اندیش محب وطن ایسے حالات میں گذرے کل کے مشاہیر اور وطن دوستوں کی کتابوں سے اقتباسات میں ہمیں حقائق بتاتے ہیں جنہیں ہم نظر انداز کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے! ماورائے عدالت قتل ہونے والے پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنی کتاب ” اگر مجھے قتل کیا گیا “ میں لکھتے ہیں
میرے خلاف بننے والا ملا ملٹری الائنس صرف میرے خلاف نہیں ہے مدرسوں کے نام پر مدرسوں میں ایسی بھیانک نسل کو تیار کیا جارہا ہے
جو آنے والے وقت میں اس ملک اور قوم کو تباہ کر دے گی وہ نسل اسلام کے نام پربچوں اور عورتوں کوقتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گی
یاد رکھاناتم لوگ جو نسل بنا رہے ہو وہ ہماری آنے والی نسلوں کی قاتل بنے گی اور پھر چاہتے ہوئے بھی اس نسل سے نجات ممکن نہیں ہو گی!
ہم پاکستانی قوم تسلیم کرتے ہیں۔

مذہب کو ہم قومی سیاست سے کسی بھی صورت میں نہیں نکال سکتے ، ہمارے دیس کی پہچان ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ! لیکن مذہب کی آڑ میں دیس ، قوم اور قومیت کاتما شہ بھی گذشتہ کئی دنوں سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریک لبیک کے اس غیر سنجیدہ عمل سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان تماشہ بنا بلکہ عوام بھی خوار ہو رہے ہیں ، لیکن ہم پاکستانی قوم اپنے خوار ہونے پر ماتم اس لئے نہیں کرتے کہ تحریک لبیک کا مقصد ہی یہ ہے ۔

تا دم تحریر دریائے جہلم کے پل سے رکاوٹیں ہٹا دی گئیں، سرائے عالمگیر اور جہلم کے درمیان ٹریفک بحال ہے لیکن وزیر آ باد اور گجرات کے درمیان چناب کا پل بدستور بند ہے، وزیر آ باد، گجرات اور گوجرانوالہ میں انٹرنیٹ سروس بند ہے اگر تحریک لبیک کی قیادت دین مصطفی کے علمبردار اور دعویدار ہے تو امت ِ مصطفی کو سڑکوں پر کیوں خوار کر رہے ہیں ۔

حکومت کے ساتھ معاہدے کے باوجود وزیر آباد میں ڈیرے ڈالنے کا کیا جواز ہے۔ لگتا ہے کہ جنہوں نے ہنگامہ آرائی کے لئے رقم لگائی ہے وہ اس معاہدے سے خوش ںہیں!
دوسری طرف خود پرست اپوزیشن ہے اوراپوزیشن کے شانے پر مولانا فضل الرحمان کا ہاتھ ہے ، ایک طرف ناموس رسا لت کے نعروں میں عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف مہنگائی کے شور میں ! خود پرستوں نے دنیا بھر میں پاکستان اور دین ِ مصطفی کو تماشہ بنا دیا ہے میڈیا کے لفافہ پرست فلاسفراپنے ہم مزاجوں کے گیت گا رہے ہیں، لیکن کالعدم تحریک ِ لبیک اور حکومت کے معاہدے سے مولانا مریم نواز کے نعرے لگوانے والے مولانا فضل الرحمان اوراپوزیشن کے خواب ادھورے رہ گئے ، مولانا مریم نواز کے ہم آواز سعد رفیق نے بھی مایوس ہو کر کہہ دیا ہمیں عمران خان کی حکومت گرانے کی کوئی جلدی نہیں۔

جماعت اسلامی کے سراج الحق کا وائٹ پیپر بھی کا م نہ آیا ،کھلاڑی کے مقابلے میں اپوزیشن ہر بازی ہار گئی ہے
 اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے سیاسی بے روزگا جماعتوں کا اجلاس طلب کر لیا ،کہتے ہیں لانگ مارچ کا فیصلہ کریں گے !
  کیا ہی بہتر ہو گا کہ ہم اپنے ، دین ، دیس اوردیس والوں سے محبت کریں۔پولیس اور افواج پاکستان سے محبت کریں ۔

جن کی چوکیداری میں ہم اپنے دیس کی پہچان ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو گا کہ سیاست دانوں اور لا تعداد مذہبی جماعتوں کے پیرو کار اپنے دیس کے خوبصور ت مستقبل سے نہ کھلیں ، اس لیئے کہ ہم سے پاکستان ہے اور ہم پاکستان سے ہیں!
 حالات کو تدبیر سے سوچو جاناں
ایمان کے اب دیپ جلاﺅ جانا ں
 دشمن کی نظر ٹھہری وطن کے در پر
اس سے بھی برے وقت کا سوچو جاناں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :