پست ہمت بھارتی فوج

جمعرات 2 جولائی 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

ایک طرف دہلی سرکار ہے جو اپنی منفی روش کے عین مطابق وطن عزیز پاکستان کیخلاف اپنی گھٹیا سازشوں کو بدستور جاری رکھے ہوئے ہے، دوسری جانب ہندوستان کے کئی سیاسی راہنماؤں اور عسکری ماہرین نے کہا ہے کہ بی جے پی کے تمام تر بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود بھارت کوسفارتی اور سیاسی مفاذ پر مسلسل پسپائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اسی تناظر میں بھارتی کالم نگار سدھیندر کلکرنی نے بھارت سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ چین کے مقابلے میں مودی کو جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ تو اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ بیان ہندوستان کی ناقص فوجی حکمت عملی کا واضح مظہر ہے۔ یہ بھارت کے ”بہت بڑے “فوجی آلات کی نااہلی اور پیشہ ورانہ کمزوریوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب پاک سپہ سالار نے کہا کہ پاکستان کو درپیش داخلی ،خارجی اور بیرونی چیلنجز کی اجتماعی نوعیت ایک جامع قومی جواب اور تمام ریاستی اداروں کو مضبوط بنانے کی متقاضی ہے۔

انہوں نے چند روز قبل نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیشنل سکیورٹی کے شرکاء سے خطاب کرتے کہا کہ ملک میں پائیدار سماجی اور معاشی ترقی کیلئے محفوظ ماحول کی فراہمی کی خاطر جو کچھ بھی درکار ہوگا‘ افواج پاکستان وہ سرانجام دیتی رہیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج ملک کے دفاع و سلامتی کیلئے پرعزم ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاک افواج کی قیادت کی جانب سے یہ بھی بار بار واضح کیا جا تا رہا ہے کہ اس خطہ میں ہمیں جس شاطر و مکار دشمن سے پالا پڑا ہے‘ اسکی بنیاد پر ہمیں دفاع وطن کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے جس کیلئے عساکر پاکستان مکمل اہل بھی ہیں اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں ہمہ وقت چوکس بھی۔

مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سفارتی مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اگر بھارت نے پاکستان کو خلوص دل کے ساتھ ایک آزاد اور خودمختار پڑوسی ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہوتا تو پاکستان بھارت کشیدگی کی کبھی نوبت ہی نہ آتی اور دونوں ملک باہمی تعاون سے ہر شعبے میں ترقی کی منازل طے کرکے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکے ہوتے مگر پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت کی شروع دن کی بدنیتی کے باعث ان دونوں پڑوسی ممالک میں کبھی دوستانہ مراسم استوار ہوسکے نہ باہمی تعاون کی خوشگوار صورتحال پیدا ہوسکی۔

اس کے برعکس بھارت نے پاکستان کی سلامتی کو تاراج کرنے کی منصوبہ بندی کو اپنی حکومتی اور ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا جس کے تحت کشمیر پر تسلط جما کر پاکستان کے ساتھ بار بار جنگ کی نوبت لائی گئی اور اسے آبی دہشت گردی کا شکار کیا گیا۔ بھارت نے اپنی شروع دن کی بدنیتی کی بنیاد پر ہی پاکستان پر 65ء اور 71ء کی جنگیں مسلط کیں‘ اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا اور پھر باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا جس کیلئے اس نے خود کو ایٹمی طاقت بنایا اور سازشوں اور گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔


ایسے سازشی اور عیار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں نے اپنے ادوار میں ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بالآخر بھٹو مرحوم کے دور سے شروع ہونیوالا سرخروئی کا یہ سفر نوازشریف کے دور میں 28 مئی 1998ء کو جوابی ایٹمی دھماکوں کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ بھارت نے موذی سانپ کی طرح بے شک پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی زہر ناکیوں کا سلسلہ جاری رکھا مگر ایٹمی قوت سے ہمکنار ہونے کے بعد اسے پاکستان پر دوبارہ باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کی جرات نہ ہوسکی البتہ اس وقت ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ بھارت کی مودی سرکار نے اپنی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم کے باعث دونوں ایٹمی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابل ضرورلا کھڑا کیا ہے جبکہ خطے میں دوسرے ممالک بالخصوص چین کے ساتھ جاری اسکی شر انگیزیوں نے پورے خطے اور تمام اقوام عالم کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔


اعتدال پسند مبصرین نے اس پس منظر میں کہا ہے بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کئی مواقع پر بجا طور پر کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے دوست تو شائد تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو لیکن اپنے پڑوسی اور ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتا۔مبصرین نے واجپائی کی اس بات کو جزوی طور پر درست قرار دیا اور کہا ہے کہ کہنے اور سننے کی حد تک ایسی باتیں کانوں کو یقینا بھلی لگتی ہیں مگر واجپائی سمیت لگ بھارت کے سبھی حکمرانوں کا رویہ اس کے برعکس رہا ہے ورگرنہ جنوبی ایشیا بھی دیگر خطوں کی مانند ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر چکا ہوتا ۔ایسے میں یہ مبہم سی امید ہی کی جاسکتی ہے کہ بھارت کے بالادست طبقات ہٹ دھرمی پر مبنی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :