نیا عالمی نظام اور پاکستان۔ایک دھندلی تصویر

بدھ 28 جولائی 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

کھول کر  آنکھیں میرے  آئینہ  گفتار  میں
آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر دیکھ
اہل علم و دانش کا یہ خاصہ ہے کہ وہ مظاہر قدرت پر مسلسل غور و فکر کرتے ہیں اور کائنات میں رونما ہونیوالی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں. یہ لوگ کرہ ارض پر وقوع پذیر ہونے والی جغرافیائی، سیاسی، مذہبی، معاشی اور تمدنی تبدیلیوں کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے مطالعہ و مشاہدات کی بنیاد پر موجودہ اور آنیوالے دورکے متعلق اپنے تجزیے اور معلومات  پیش کرتے ہیں.

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تجسس بنی آدم کو اپنے والد محترم حضرت آدم علیہ السلام اور ماں حضرت اماں حوا سلام اللہ علیہا سے وراثت میں ملا ہے.  لہذا اللہ کے بندے اللہ کی زمین پر ہونیوالی سرگرمیوں اور ان کی بابت مستقبل میں پیدا ہونیوالے حالات سے ہر صورت باخبر رہنا چاہتے ہیں. مستقبل بینی، آنیوالے حالات سے آگہی اور زمانہ استقبال کے بارے پشین گوئیاں کرنے کی طاقت کئی لوگوں کو اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کردی جاتی ہے جو چشم باطن اور اللہ کے عطا کردہ علم (علم وجدان) سے آئندہ پیش آنیوالے حالات و واقعات کا اپنی دانست کے مطابق اندازہ لگاکر اللہ کی باقی مخلوق کو ان حالات و واقعات کی خبر ڈهکے چهپے الفاظ، اشاروں اور کنائیوں کی شکل میں دیتے ہیں.


اللہ رب العزت نے اپنے تمام انبیاء اکرام علیھم السلام کو مستقبل بینی کی قوت عطا فرمائی اور انکو وہ علم (علم غیب) عطا فرمایا جس کے وسیلہ سے وہ عظیم ہستیاں  آنیوالے زمانے سے متعلق لوگوں کو آگاہ فرماتی تھیں. ان منتخب بندوں یعنی انبیاء کرام کے علاوہ اللہ رب العزت کے کئی دوسرے بندے بھی علم وجدان کو پا جاتے ہیں اور ان کو مستقبل کی دهندلی تصاویر نظر آتی ہیں جس کی بنیاد پر وہ مستقبل کے بارے میں پشین گوئی کرتے اور اپنی آراء لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں.

دونوں گروہوں کے مابین فرق صرف اتنا ہے کہ اللہ رب العزت کے مکرم انبیاء کرام جو کچھ اپنی چشم باطن سے دیکهتے ہیں یا جو پشین گوئی کرتے ہیں وہ عین حق اور سچ ہوتی ہے لیکن عام اہل علم حضرات چونکہ اللہ رب العزت کے اس حد تک قریب نہیں ہوتے اس لیے انکی پیشین گوئیاں ہمیشہ صداقت پر مبنی نہیں ہوسکتی کیونکہ مستقبل بینی کے دوران اگر کوئی طاغوتی طاقت ان پر  غالب آ گئی تو اس طاقت کے زیر اثر وہ لوگ کچھ غلط بھی کہہ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

  ان تمام تر ہستیوں میں سب سے زیادہ معتبر ہستی آقائے نامدار، تاجدار مدینہ حضور سرور کائنات خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سلم  کی ہے اور بیشک آپکی ہر ہر بات مستند ترین اور عین حق و صداقت ہے.
  اب آجاتے ہیں میری اور آپکی طرف.

میرے جیسا عام آدمی بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے اور وہ اپنے آئیندہ زمانے کے بارے میں قبل از وقت جاننے کے لیے ہمہ تن مضطرب بھی رہتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ آنیوالا وقت میرے لیے کیسا ہوگا اور میرے مقدر کا ستارہ مجھے کس جانب لیکر جائے گا. ہم وہ لوگ ہیں جو خود مستقبل بینی یا علم وجدان نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے متسقبل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں.

ایسی صورتحال میں ہم جیسے لا علم لوگ اہل علم لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں. ہم لوگ اپنا مستقبل جاننے کےلیے اپنے اپنے عقائد کے مطابق انبیاء اکرام کی باتوں، حضور نبی کریم کی مبارک احادیث، اولیاء اللہ کے ارشادات و پشین گوئیوں، علم رمل و نجوم کے ماہر جوگیوں اور قوت وجدان کا ملکہ رکھنے والے مستقبل بینی کے ماہرین سے راہنمائی لیتے ہیں.
زمانہ قدیم کے لوگ مستقبل سے باخبر رہنے کے لیے مستقبل بینی کے ماہرین کے محتاج تھے اور عصرحاضر میں بھی لوگ ان پر یقین رکھتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے مستقبل سے متعلق ان پیشین گوئیوں کو جانیں اور پھر اس کے مطابق اپنے امور طے کرنے کی منظم منصوبہ بندی کریں۔ پیشین گوئیوں کا یہ سلسلہ افراد سے خاندانوں، خاندانوں سے معاشروں، معاشروں سے ملکوں اور ملکوں سے بین الاقوامی حدود  تک وسیع ہوتا جاتا ہے.

اس تحریر میں عالمی طاقتوں کے تبدل، ممکنہ نئے عالمی نظام کے قیام اور اس میں پاکستان کے کردار اور پاکستان کی اہمیت کو زیر قلم لایا جائے گا۔ چونکہ ہم مسلمان اور پاکستانی  ہیں اور اپنے ہی مستقبل کے بارے میں باخبر رہنا چاہتے ہیں لہذا  اس تحریر کا محور، ملت اسلامیہ (عالم اسلام) اور اسلام کی اکلوتی جوہری طاقت یعنی پاکستان کا مستقبل  ہے.
 آئیے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر ملت اسلامیہ اور پاکستان کے مستقبل سے متعلق کی گئی پیشین گوئیوں کی مدد سے نئے عالمی نظام کے قیام اور اس میں پاکستانی کردار کی دهندلی تصویر کو نمایاں کرنیکی کوشش کرتے ہیں.
 بات کرتے ہیں پندرہویں صدی عیسوی میں ناسٹراڈیمس نامی ایک مشہور فرانسیسی نجومی کی جو ہٹلرکے عروج و زوال، امریکہ (جو کہ اس وقت موجود بھی نہ تها) سمیت اکیسویں صدی کے متعلق اپنی حیران کن پشین گوئیوں کے باعث مغربی اقوام میں مشہور ہے.

وہ اپنی شہر آفاق کتاب "The Centuries" میں لکھتا ہے کہ
"یہودیت کے زوال، مقدس صلیب کے ٹوٹنے اور مغرب ( مغرب کا نام اشاروں اور کنایوں کے طور پر استعمال ہوا جو کہ حالات حاضرہ کی رو سے امریکہ اور اسرائیل بنتا ہے) کی تباہی وبربادی کردینے والی جنگ کے آغاز کا مرکز ممکنہ طور پر صحرائے عرب کے قریب کسی سرسبز پہاڑی علاقہ سے ہوگا"۔  ناسٹراڈیمس نے جس علاقے کی نشاندہی کی وہ جنگی علاقہ جغرافیائی اعتبار سے  پاکستان کا کچھ علاقہ اور افغانستان کا کچھ حصہ  بنتا ہے.

لہذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کے کہ پاکستان عالم کفر کی تباہی و بربادی کا نام ہے. کیونکہ شرح محمدی کی امین اور مدینتہ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد واحد اسلامی نظریاتی ریاست ہے.
عالم کفر (بالخصوص اہل یہود) پاکستان سے کس قدر لرزاں ہیں ؟ یا اسلامی نظریاتی لحاظ سے پاکستان کس اہمیت کا حامل ہے؟ یہ وضع کرنے کیلیے ایک دو  واقعات اور عرض کیے دیتا ہوں .
کسنجر ایک امریکی یہودی اور اہم امریکی منصبدار تھا.

امریکہ کے داخلی اور خارجی امور میں جو قدرومنزلت اسے ملی امریکی کم ہی کسی کو دیتے ہیں. اس نے خارجہ پالیسی کیلیے  کسنجر ڈاکٹرائن وضع کیا جسکو امریکہ میں بالکل وہی اہمیت حاصل ہے جو کوتلیہ چانکیہ ڈاکٹرائن کو بھارتی خارجی پالیسی میں حاصل ہے. کسنجر اپنے فلسفہ میں کہتا ہے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل اپنی بقا چاہتے ہیں تو وہ کبھی بھی پاکستان، افغانستان اور ایران میں استحکام نہ ہونے دیں.

کیونکہ انکا معاشی، سیاسی اور معاشرتی استحکام امریکہ کی تباہی کا دوسرا نام ہے.
سید قمر سبزواری اپنی کتاب میں یروشلم پوسٹ اگست1967 سے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ گویان کا بیان نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے بیان میں ڈیوڈ گویان نے پاکستان کو اپنا واحد دشمن قرار دیا. قمر شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ڈیوڈ نے کہا کہ بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کسی بھی صورت پاکستان سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان کا فکری، ذہنی، عسکری و معاشی سرمایا ہمارے لیے مصیبت کا باعث ہے۔ پاکستان ہمارا واحد حقیقی، نظریاتی اور ازلی  دشمن ہے.

اسکے برعکس انڈیا ہمارا دوست اور حامی و مددگار ہے. لہذا انڈیا کو معاشی و عسکری طور پر مضبوط کرنا ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا اور یہ ملک آگے چل کر ہمارا زور بازو بنے گا.
افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء، وزیراعظم پاکستان کی جانب سے absolutely  not اور بھارت راء کی کاروائیوں کے زیر اثر پیدا شدہ  موجودہ حالات کی جانب ہم پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے پاکستان کی اقوام عالم میں بڑھتی ہوئی اہمیت پر باقی گفتگو اگلی نشست میں کریں گے ۔ آج کے کالم کا اختتام  ساغر صدیقی کے اس شعر پر
کچھ زمینوں کے ستارے ساغر
آسمان کی خبر رکهتے ہیں
جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :