
زندگی کے مسئلوں کا حل نکلنا چاہیے
جمعہ 24 اپریل 2020

حیات عبداللہ
تلاشِ رزق میں گھر سے نکلنا پڑتا ہے
(جاری ہے)
آپ نے کتنی ہی مرتبہ ننّھے منّے ہاتھوں کو کسی ورکشاپ کی سیاہی میں لتھڑے اور استاد کی جھڑکیاں سنتے دیکھا ہو گا۔
آپ نے سیکڑوں مرتبہ آنکھوں میں اداسیاں سمیٹے ایسے بچّوں کو جوتے پالش کروانے کے لیے مِنتیں سماجتیں کرتے بھی دیکھا ہو گا۔آپ ہسپتالوں میں چلے جائیں یا کسی ریلوے سٹیشن پر، آپ کو غربت کی چوکھٹ پر سر پٹختے درجنوں بچّے دکھائی دیں گے۔ان بچّوں کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں محنت اور مشقت کے باعث دراڑیں پڑ چکی ہوں گی۔ایسے کتنے ہی بچّے ہوں گے جو سخت جانی کے باعث تھکے ہارے کسی فٹ پاتھ یا ریلوے سٹیشن پر سوئے پڑے ہوں گے۔مفلسی بچّوں کو سڑکوں پر لے آئی ہے۔وہ اپنے گھر والوں کے پیٹ پالنے کے لیے در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔معاشی بدحالی کے باعث ننّھے بچّے ہوٹلوں میں برتن مانجتے اور مالک کی جھڑکیاں برداشت کرتے ہیں۔آپ نے یقیناً بَھٹّا خِشت پر معصوم پھولوں کو اینٹیں تھاپتے بھی دیکھا ہو گا۔ممکن ہے آپ نے ڈینٹنگ اور پینٹنگ کے باعث بچّوں کے پھیپھڑوں میں گَرد گُھستی بھی دیکھی ہو، شاید آپ نے بارہ بارہ گھنٹوں تک پنجوں کے بل بیٹھ کر قالین بافی کرتے بچّوں کے مڑے ہوئے پنجے بھی دیکھے ہوں۔جیسے معذور کا دیوار پہ چلنا مشکل
بھوک آداب کے سانچوں نہیں ڈھل سکتی
سوال یہ ہے کہ آخر اس گھمبیر اور سلگتے مسئلے کا حل کیا ہے؟ میں دولت کی منصفانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کا رونا بھی نہیں رونا چاہتا اور نہ میں اس بات کا حامی ہوں کہ جن لوگوں کے پاس ان گنت مال واسباب ہیں، وہ ان سے چھین لیے جائیں۔مسئلے کا حل کچھ اور ہے، جو ہے بھی قابلِ عمل اور انتہائی پائدار۔مگر مسئلے کے حل سے قبل آئیے! کچھ امیر ترین لوگوں کی دولت اور خزانوں کے انبار پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالیں۔پاکستان کے پہلے چھے امیر ترین لوگوں میں شاہد خان، انور پرویز، میاں منشا، ملک ریاض، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے نام شامل ہیں۔ان لوگوں کے کُل اثاثے تقریباً 21 ارب ڈالر ہیں۔یہ اثاثے لکھنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ یہ رقم ان سے چھین کر غربا میں تقسیم کر دی جائے۔نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے اور نہ یہ مسئلے کا حل ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ ان امرا سے ان کے مال کی زکات کی پوری رقم وصول کر کے ان غریب لوگوں میں تقسیم کر دی جائے تو واللہ! ایک شخص بھی غریب نہیں رہے گا۔پہلے چھے امیر ترین لوگوں کی رقم پر زکات 84 ارب 52 کروڑ 50 لاکھ روپے بنتی ہے جو کہ 5 لاکھ لوگوں میں 1 لاکھ 69 ہزار روپے کے حساب سے تقسیم کی جا سکتی ہے۔یہ تو صرف چھے افراد کی زکات ہے جس سے پانچ لاکھ افراد اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔اگر ہر صاحبِ ثروت اپنا عشر اور زکات ادا کرنا شروع کر دے تو ایک بھی شخص غریب نہیں رہے گا۔ان امیر لوگوں کے اربوں ڈالر ان ہی کو مبارک بس ان سے فقط اتنی زکات لے لی جائے جتنی اللہ نے فرض کی ہے تو غربت کا نام ونشان تک باقی نہیں رہے گا لیکن اگر زکات اور عشر کے نظام کو فعال نہ بنایا گیا تو پھر جیسے مرضی آئے نظام لے آئیں، غربت کو بڑھنے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔
زندگی کے مسئلوں کا حل نکلنا چاہیے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حیات عبداللہ کے کالمز
-
چراغ جلتے نہیں ہیں، چنار جلتے ہیں
ہفتہ 5 فروری 2022
-
اشعار کی صحت
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
اشعار کی صحت
جمعہ 19 نومبر 2021
-
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
ہفتہ 14 اگست 2021
-
جب بھی اہلِ حق اُٹھے، دوجہاں اٹھا لائے
منگل 8 جون 2021
-
وہ دیکھو! غزہ جل رہا ہے
ہفتہ 22 مئی 2021
-
القدس کے بیٹے کہاں ہیں؟
منگل 18 مئی 2021
-
کوئی ایک گناہ
بدھ 12 مئی 2021
حیات عبداللہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.