عمران خان سے عوام کی توقعات

جمعہ 24 اگست 2018

Hussain Jan

حُسین جان

تعریفیں بہت ہوچکیں بحثوں کا کیا ہے وہ تو چلتی رہیں گی۔ اپوزیشن الزامات اور تنقید کے دونگرے بجائے گی۔ اصل مسئلہ عوام کا ہے۔ لوگ آج بھی نواز شریف کی بھولی شکل کو یاد کرتے ہیں۔ اس قوم کا یہی تو المیہ ہے جدھر بھولی شکل دیکھی اُدھر دھوکہ کھانے کو تیا ر ہو گئی۔ وہ لوگ جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے یا اسے کسی بھی حوالے سے سپورٹ کیا آج بھی لوگوں سے روزانہ کی بنیاد پر پارٹی کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔

بات بڑی سیدھی سی ہے عمران خان کے کرنے کے کام صرف چند ایک ہی ہیں۔ اگر یہ کام وہ اور پارٹی کر گزرے تو ناقدین کے منہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔ اور ان کاموں کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے ایمانداری ،سچائی اور محنت کی ضرورت ہے ۔

(جاری ہے)

اور یہ خوبیاں عمران خان میں موجود ہیں۔ سب سے پہلے ملکی معیشت ٹھیک کی جائے۔ اُس کے بعد عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے۔

صحت اور تعلیم عام ہو۔ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت جتنی اچھی کی جاسکے اُتنی بہتر ہے۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے ووٹ تو نواز شریف کو دیا ہے۔ لیکن اُن کے دل کے کسی کونے میں یہ بات موجود ہے کہ عمران خان ملک کے حالات بہتر کرے گا۔ یہاں عام آدمی کی زندگی بہت مشکل سے گزر رہی ہے۔ سرکاری سکولوں کی حالت ناگفتہ ہے۔ امراء کے لیے جو نجی سکول ہیں وہاں غریب تو غریب مڈل کلاسیے بھی اپنے بچوں کو داخل نہیں کروا پاتے۔

اس کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے نجی سکول ہیں جو بچوں کے مستقبل برباد کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں آجکل کوٹھی سکولوں کی بھرمار ہے۔ یعنی ایک کنال کی کوٹھی کسی پوش ایرے میں کرایہ پر لو اور سکول شروع کر دو۔ ایسے سکولوں میں نا کھیلنے کے میدان ہوتے ہیں اور نا ہی کوئی دوسری سرگرمیاں۔ ہاں پیسے بٹورنے کے لیے نت نئی چلاکیاں کھیلی جاتی ہیں۔

دوسری طرف ہسپتالوں کی حال بھی قابل افسوس ہے۔ مریضوں کو اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ جب تک باری آتی ہے وہ اللہ کو پیارے ہوچکے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر باقاعدہ عمران خان کے خلاف کمپین چلائی جارہی ہے۔ میرے خیال میں اس کمپین سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑئے گا۔ کیونکہ تحریک انصاف کے لوگ اس کا برابر جواب بھی دیتے رہتے ہیں۔ مہنگائی نے بھی عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔

عام آدمی کی قوت خرید جواب دیتی جارہی ہے۔ ملاوٹ نے بچوں کی صحت پر برئے اثرات ڈالیں ہیں۔ دس دس سال کے بچوں کے سر کے بال سفید ہوجاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملاوٹ شدہ چیزوں کا استعمال ہے۔
ایک زمانے میں چوہدری نثار کہا کرتے تھے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ عمران خان کا فین کلب ہے۔ اور پھر اس کے ورکروں اور ووٹروں نے یہ ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔

عمران خان پر بہت بھاری زمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ نئے پاکستان میں زیادہ تر چہرے پرانے ہی ہیں۔ تحریک انصاف کے ورکروں کو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ چہرے نئے ہوں یا پرانے ہر وہ بندہ قابل قبول ہو گا جو عوام کے لیے کام کرئے۔
عمران خان کی تقریر سے کم ازکم یہ بات تو باور ہوجاتی ہے کہ کپتان کو ملکی مسائل کا ادراک ہے۔

جبکہ جو باتیں عمران خان نے عوام سے کیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہمیں کبھی کسی سیاستدان نے یہ مسائل نہیں بتائے۔ بلاول ، حمزہ یا مریم کو ان مسائل کا بالکل بھی نہیں پتا۔ وہ عوامی لوگ نہیں ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ بڑئے باپوں کے بچے ہیں۔ لیکن ان بڑئے باپوں نے ملک خداداد کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کرپشن اُن کے زمانے میں عروج پر رہی ہے۔

ہر دفتر میں کرپشن کا بازار سجایا جاتا ہے۔ ہر کام کے ریٹ مقرر ہیں۔ پی آئی اے سے لے کر واپڈا تک ریلوئے سے لے کر ایف بی آر تک تمام اداروں میں کرپٹ لوگ بھرتی کئے گئے ہیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ ادنیٰ سا کلرک بھی کروڑوں روپے کا مالک ہے۔ ایسے میں ملک کے حالات کہ بہتر کرنا کسی چیلنچ سے کم نہیں۔ اس مافیا کو ختم کرنے کے لیے مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔


بے روزگاری بھی اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ اس کو بھی جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ نوکریوں کا جو وعدہ عمران خان نے کیا ہے لوگ اُس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ لیکن عوام کو یقین ہے کہ عمران خان یہ مسلئہ بھی حل کر لے گا۔ اب یہ عمران خان پر منصر ہے کہ کیا وہ عوام کی توقعات پر پورا اُترتے ہیں کہ نہیں۔ لیکن ایک بات پکی ہے عمران خان کے علاوہ عوام کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ ملک کے عوام کے لیے اتنا کرئے کہ چاروں صوبوں میں اگلی دفعہ حکومت پی ٹی آئی کی ہی بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :