"یورپین یونین آخر چاہتا کیا ہے ؟ آرٹیکل 295 (سی) کا خاتمہ یا پاکستان میں ایئر بیس ؟"

جمعہ 7 مئی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

حال ہی میں یورپین یونین کے پارلیمان میں ایک قرارداد پر ووٹنگ ہوئی جس میں پاکستان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان اپنے ملک میں توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت جو ایذا رسائی اقلیتوں کو پہنچاتا ہے اسے بند کرے اور اس کے علاوہ صحافیوں اور انسانی و مذہبی حقوق کی تنظیموں کو بھی آزادی سے کام کرنے دے اور اگر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام ہوا تو اس سے یورپین یونین کی جانب سے دیا جانے والی جی ایس پی پلس کا درجہ واپس لے لیئے جانے پر غور کیا جائے گا۔

اس قراداد کی حق میں 662 ممبران نے ووٹ دیا اور 3 افراد نے اس کی مخالفت میں وٹ دیا جبکہ 26 ممبران نے اس کاروائی میں حصے لینے سے اجتناب کیا۔
اگر ہم ماضی میں زیادہ دور نا جائے تو جب ضیا الحق نے 1977 میں پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کیا تو اس نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرواکر اپنی کٹپتلی اسمبلی کے ذریعے ملک بھر میں اسلامائزیشن کا سلسلہ شروع کیا جس میں حدود آرڈیننس اور آرٹیکل 295 میں ترمیم کرکے کلاز (سی) شامل کرنے جیسے قوانین قابلِ ذکر ہیں۔

(جاری ہے)

یہ وہ دور تھا جب ضیا الحق کو مکمل طور پر امریکہ اور  نیٹو کی حمایت حاصل تھی۔ تب یورپین یونین کو یہ پرواہ نہیں تھی کہ جرنل ضیاء پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے ذریعے مذہبی انتہاپسندی کے بیچ بو رہا تھا بلکہ انہیں یہ دلچسپی تھی کہ جرنل ضیاء کے ساتھ مل کر افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جہاد کس طرح کیا جائے۔ تو اب اچانک یورپین یونین کو انسانی حقوق کی یاد کیسے آگئی اور تب کیوں نا آئی جب انکا حمایت یافتہ آمر جنرل ضیاء ان قوانین کو بنارہا تھا ؟ اور اچانک اس طرح کے فیصلوں کے پیچھے یورپ کے کونسے مقاصد ہیں جو وہ پاکستان کو اس طرح دباؤ میں ڈال کر حاصل کرنا چاہتا ہے ؟
جیسا کہ یہ بات اب واضح ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس سال کے آخر میں ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل طور پر انخلاء کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں جبکہ پینٹاگون کو اس معاملے میں کافی تشویش ہے کیونکہ انہیں ابھی بھی لگتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔

اوباما کے دورِ صدارت میں بھی پنٹاگون نے اوباما کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی جب انہوں نے افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ کے دود میں بھی پینٹاگون بارہا کہتا رہا کہ ٹرمپ جلدی نا کریں۔ حال ہی میں سینٹ کام کے چیف جرنل مکینزی نے بھی سینٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کو جلدی نہیں کرنی چاہیے اور اگر انخلاء کرتا بھی ہے تو اسے آس پاس کے ممالک میں ایئر بیسس درکار ہونگے جس سے وہ افغانستان چین اور روس کی نقل و حرکت پر بھی پر نظر رکھ سکیں گے۔

لہٰذا انہوں نے سب سے پہلا آپشن پاکستان اور وسطی ایشیاء کا رکھا کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی امریکہ کا سابقہ شمسی ایئربیس موجود ہے جو سلالہ حملے کے بعد خالی کروادیا گیا تھا جبکہ ازبکستان میں کرشی خاناباد ایئر بیس موجود ہے جس پر انہیں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جرنل مکینزی نے بریفنگ میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان کی سیکیورٹی کو زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جسے کچھ پاکستانی تجزیہ کاروں نے امریکہ کی جانب سے ایک دھمکی کے طور بھی دیکھا کہ "یا تو فوجی اڈا مہیا کرو یا دہشتگری کے لیئے تیار ہو جاؤ۔


کچھ امریکی دفاعی تجزیہ کاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ امریکہ کو بھارت کے بیسس کو (BECA) معاہدے کے تحت استعمال کرتے ہوئے کشمیر میں امریکی فوج کو بٹھا دینا چاہئے اگر پاکستان انکار کرتا ہے بییس دینے سے۔ اسی اثناء میں کچھ پاکستانیوں نے بھی کہہ دیا کہ پاکستان کو جلد امریکہ کو اڈا فراہم کرنا چاہئے ورنہ وہ کشمیر میں آکر بیٹھ جائے گا اور کشمیر کے معاملے میں اپنی رائے مکمل بھارت کے حق میں موڑ دے گا جو میرے خیال سے انتہائی نامعقول قسم کی دلیل ہے۔

کیونکہ اگر بھارت بالفرض امریکہ کو کشمیر میں بیس دے بھی دیتا ہے تو تب بھی اسے پاکستان کا ہوائی راستہ استعمال کرنے کے لئے اسلام آباد کی اجازت درکار ہوگی افغانستان میں کوئی بھی حملہ کرنے سے قبل جو پاکستان کی جانب سے دینا دور دور تک ممکن نہیں کہ ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔
لہٰذا امریکہ کے پاس ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنے اتحادی یورپین یونین کے ذریعے بلیک میل کیا جائے کہ "یا تو آپ ہمیں اپنا فوجی اڈا دو یا معاشی طور پر پابندیوں کے لیئے تیار ہوجاؤ" جس میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے حالیہ پرتشد مظاہروں نے پاکستان کا کیس کو مزید کمزرو کیا تاہم پاکستان اس وقت نا ہی توہینِ مذہب کے قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نا ہی یہ چین کے 68 بلین ڈالرز کا پروجیکٹ خطرے میں ڈال سکتا ہے امریکہ کو بیس دے کر۔

لہذا پاکستان کے پاس ایک راستہ ہوگا اور وہ یہ کہ انتہا پسند جماعتوں کے خلاف کاروائی کرے اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کنوینشن میں جو کمٹمنٹس کیئے گئے تھا اس پر عمل درآمد کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنی معیشت کا انحصار یورپین یونین کی ایکسپورٹ پر کم کرکے اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے نئی مارکیٹیں بھی تلاش کرنی ہونگی تبھی وہ اس بلیک میلنگ سے بچ پائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :